حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی ایک فعال علمی و تنظیمی شخصیت ہیں۔ آپ علوم دینیہ میں درس خارج مکمل کرنے کے علاوہ علمِ اقتصاد میں پی ایچ ڈی ڈاکٹر بھی ہیں۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی مجلس وحدت مسلمین کے بانی رکن اور شعبہ امور خارجہ کے سربراہ ہیں۔ ان کی تنظیمی زندگی کا دورانیہ ان کے زمانہ طالب علمی سے آج تک چار عشروں سےزائد عرصہ پر محیط ہے۔ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے تنظیمی فعالیت کے علاوہ دینی و اجتماعی فرائض کی ادائیگی کے لیے بین الاقوامی ادارہ الباقرؑ کی نیز بنیاد رکھی جو اپنے اغراض و مقاصد کی روشنی میں فعالیت انجام دے رہا ہے۔ آپ پاکستان میں قائم ایک وسیع تبلیغی نظام (مجلس علماامامیہ پاکستان) کے بھی سربراہ ہیں جو معاشرے میں تبلیغ دین کی تقویت میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے ۔
بین الاقوامی ادارہ الباقر کے شعبہ ابلاغ نے حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی کی علمی و وسیع تنظیمی خدمات کے پیش نظر ان کے زمانہ طالب علمی کی تنظیمی فعالیت کے حوالے سے ایک انٹرویو کیا ہے جسے دلچسپی رکھنے والے قارئین کے لیے شائع کیا جارہا ہے۔
سوال: زمانہ طالب علمی کے بارے اپنے تاثرات سے مستفید فرمائیے ؟۔
جواب: طالب علمی کی زندگی ایک منفرد اور يادگار زندگی ہوتی ہے۔ نوجوان اس ابھرتی جوانی کے عالم میں حسین وجمیل مستقبل کے خواب دیکھتا ہے۔ معاشرے میں اپنے اور اپنے خاندان کی سماجی حیثیت اور معاشی ترقی کے لئے بلندیوں کو چھونے کے لئے اونچی پروازیں کرنے کا عزم کرتا ہے۔ نوجوانی کے عالم میں انسان معمولا آزاد منش اور آزاد فکر ہوتا ہے۔ اس کی ضروریات نسبتا محدود ہوتی ہیں اور عام طور پر ان محدود ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری بھی اس کے کاندھوں پر نہیں ہوتی۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں یہ بوجھ ہمارے والدین یا بھائی وغیرہ اٹھاتے ہیں۔ عمر کے اس حصے میں دوسروں سے مقابلہ وموازنہ کرنا اور مسابقت کا جنون بھی عموما نوجوانوں کے ذہنوں پر سوار ہوتا ہے۔ نوجوانی کے عالم میں انفرادیت وبرتری کے حصول اور سبقت حاصل کرنے کے جذبات زیادہ مچلتے ہیں۔ یہ جذبات نوجوان کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے امور میں سب سے اچھا ہونے اور بلند وبالا و برتر مقام پانے پر اکساتے ہیں۔ کسی بھی لحاظ سے نمایاں و منفرد اور کامیاب شخص لوگوں کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے۔ اور جب لوگ اس کی مدح سرائی یا تعریف کرتے ہیں کہ ماشاء اللہ فلاں جوان ، فلاں کا بیٹا ، فلاں کا بھائی بہت لائق اور ذہین ہے ۔ فلان علم وفن میں مہارت رکھتا ہے یا اچھا کھلاڑی ، چاک وچوبند یا مؤدب و دیندار ہے۔ یا صحت مند و دلیر وبہادر ہے وغیرہ وغیرہ ۔ تو اس تعریف سے فقط وہ جوان ہی نہیں بلکہ اس کے والدین بھائی اور قرابتدار سب اس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس حوصلہ افزائی سے اسکے حوصلے اور بلند ہوتے ہیں۔ وہ پھر فقط اپنی ذات کے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے خاندان و علاقے ، دین ومذھب اور ملک وملت کی سربلندی کے لئے ایثار و قربانی اور خدمت کے جذبے کے ساتھ اعلی تعلیم اور اعلی مراتب و مقامات کے حصول کے لئے پوری تگ و دو اور محنت و کوشش میں لگ جاتا ہے۔
سوال: زمانہ طالب علمی کے دوران اپنی تنظیمی فعالیت کے بارے کچھ بیان فرمائیں؟۔
جواب: ہم نے 1980 -81 کے تعلیمی سال میں سرگودھا بورڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودھا ڈپلومہ اِن کامرس کے پہلے مرحلے سی-کام میں داخلہ لینے چند دوستوں کے ساتھ کالج آیا ۔ جب پہلی مرتبہ کالج کی دہلیز پر داخلے کے ایام میں قدم رکھا تو اس وقت بہت عجیب وغریب احساسات وجذبات سینے میں موجزن تھے۔ایک نئے تعلیمی مرحلے کا آغاز تھا۔ کالج کے گیٹ پر طلبہ تنظیموں نے نو وارد طلبہ کی رہنمائی اور انہیں اپنی تنظیم کی طرف مائل اور جذب کرنے اور انہیں رکن بنانے کے لئے اسٹالز لگا رکھے تھے۔ اور بہت خوش اخلاقی کے ساتھ نو وراد طلبہ سے پیش آ رہے تھے۔ ان اسٹالرز میں انجمن طلبہ اسلام (ATI)، اسلامی حمیعت طلبہ (IJT)، پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF)، مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن (MSF)کے اسٹالز نمایاں تھے۔ ان سب کے اراکین نے ہمارے ساتھ الگ الگ ملنے کی کوشش کی۔ اور اپنی تنظیم سے روشناس کروانے کے لئے اپنے منشورات اور لٹریچر دیا ۔ اور داخلے کے پراسس میں رہنمائی کے لئے اپنی خدمات کی آفر کی۔ اب جستجو پیدا ہوئی کہ ان طلبہ تنظیموں کے بیک گراؤنڈ اور اہداف سے آگاہی حاصل کی جائے۔ ابتدائی ایام میں دوست احباب سے پوچھ گوچھ کرنے سے ایک سرسری تعارف تو گیا لیکن داخلے کے چند ماہ بعد تو ہر تنظیم سے مکمل آشنائی ہو گئی کہ ہر تنظیم کا بانی کون ہے اور کس مسلک ومذہب سے انکا تعلق ہے اور سیاسی اعتبار سے کس پارٹی سے منسلک یا نزدیک ہیں ۔
ہم نے اپنی دینی و مذہبی اور معاشرتی وسیاسی ترجیہات کی بنا پر جب ان چاروں طلبہ تنظیموں کا جائزہ لیا تو ATI کو باقی سب تنظیموں سے قریب تر پایا ۔ سن رکھا تھا کہ شیعہ طلبہ کی بھی ایک تنظیم ہے جس کا نام امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن ہے لیکن تلاش کرنے سے بھی اسکے آثار ہمیں اپنے کالج میں کہیں نظر نہ آئے۔ 1981 -82 میں سی-کام پاس کیا اور ڈی- کام کے مرحلے میں تھا جب 1982- 83 کو اسٹوڈنٹس یونین کے ملک بھر میں انتخابات ہوئے ۔ ہمارے شاہپور کے شیرازی سادات اور انکے دوستوں کے گروپ نے جوائنٹ سیکرٹری کی سیٹ پر یہ الیکشن ATI کے پلیٹ فارم سے لڑنے کا فیصلہ کیا۔ مقابلہ سخت تھا لیکن پھر بھی ماسوائے جنرل سیکرٹری کے باقی تینوں نشستیں (صدر و نائب صدر اور جوائنٹ سیکرٹری ATI نے جیت لیں جبکہ ذاتی طور پر مقبول ہونے کے لحاظ سے میرے کلاس فیلو رانا انیس نے جنرل سیکرٹری کا الیکشنIJT کے پلیٹ فارم سے جیتا۔ نتائج کے مطابق پورے پینل میں سے سب سے زیادہ ووٹ ہمارے گروپ کے جوائنٹ سیکرٹری کے امیدوار برادر سید ثقلین شیرازی نے حاصل کئے ۔ اس الیکشن کے فورا بعد دل میں تمنا اور خواہش پیدا ہوئی کہ آخر ہمارے اپنے مذہب اور سیاسی واجتماعی موقف کی ترجمان طلبہ تنظیم یہاں کیوں نہیں ہے۔ ہمیں بڑی شدت سے اپنی تنظیم نہ ہونے کی کمی کا احساس ہوا ۔
سوال: امامیہ طلبہ کی نمائندہ تنظیم آئی ایس او سے آپ کا رابطہ کیسے ہوا؟۔
جواب: میرے ایک قریبی دوست سید رشیق رضوی نے اور بعض دیگر کلاس فیلوز نے بتایا کہ ہماری ملک گیر طلبہ تنظیم جس کا نام امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہے اس کا یونٹ گورنمنٹ کالج سرگودھا میں ہے۔ انکے والد زرعی کالج میں ملازم تھے اور انکی رہائش سرگودھا شہر میں ہی تھی ۔ انھوں نے مجالس عزاء میں شرکت کے دوران دیکھ رکھا تھا کہ محرم الحرام کے ایام میں اس تنظیم کی طرف سے شہر کے امام بارگاہوں میں اسٹالز بھی لگتے ہیں اور عاشوراء کے جلوس میں نماز باجماعت کا انتظام بھی یہی طلبہ تنظیم کرتی ہے۔ جب ان باتوں کا علم ہوا کہ ہمارے شہر میں یہ تنظیم ہے تو پھر ہم نے پکا ارادہ کر لیا کہ ہم کافی تعداد میں شیعہ طلبہ اس کالج میں ہیں ۔ ہمیں بھی اس اپنی تنظیم سے منسلک ہو کر اس کا ایک یونٹ اپنے کالج میں بنانا چاہیے۔ انہیں ایام میں برادر سید رشیق رضوی کی ملاقات آئی ایس او کے سابق ڈویژنل صدر برادر ظفر عباس چشتی صاحب سے ہوئی ۔ انھوں نے کچھ معلومات حاصل کیں اور آئی ایس او سے منسلک ہونے کے بارے میں انکے مابین گفتگو ہوئی۔ برادر رضوی صاحب نے اگلے دن کالج میں ہمیں بتایا کہ آئی ایس او کے دستور کے مطابق اگر ایک کالج میں ہمارے دس طلبہ ہوں تو یونٹ بن سکتا ہے ۔ ہم نے اپنے دوستوں سے مشاورت کی اور انہیں آئی ایس او کا یونٹ بنانے پر آمادہ کیا۔ برادر رشیق رضوی صاحب سے کہا کہ وہ برادر ظفر عباس چشتی صاحب سے وقت لیں اور ہم سب ان سے ملاقات کریں گے۔ طے پایا کہ مدرسہ دارالعلوم محمدیہ میں بعد نماز ظہرین ملاقات ہو گی۔ کامرس کالج سرگودھا میں آئی ایس او کے یونٹ کی تاسیس کے موضوع پر ہمارے 10 افراد کی معینہ دن اور وقت پر ملاقات ہوئی۔ برادر چشتی صاحب نے آئی ایس او کا مفصل تعارف کروایا اور اس تنظیم کا تاریخچہ بیان کیا اور اسکے نصب العین واغراض ومقاصد پر روشنی ڈالی۔ ہم نے انہیں اپنے کالج آنے کی دعوت دی تاکہ ہمارے سب دوستوں سے آ کر گفتگو کریں اور باقاعدہ یونٹ قائم کریں۔ اس وقت ہمارے اپنے قریبی شیعہ دوستوں کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ جن میں میرے علاوہ ، برادر سید محمد ثقلین شاہ شیرازی اور برادر سید محمد امین شاہ شیرازی تو شاہ پور سے ہی تھے۔ اسی طرح برادر سید رشیق رضوی ، برادر ملک ضمیر الحسن ، برادر فدا حسین ، برادر مظفر حسین ، برادر سید نذر عباس کاظمی ، برادر ملک محمد علی اور برادر ملک غلام علی ، رانا ریاض احمد ، ملک سلیم ، ناصر عباس خان اور دیگر چند ایک دوستوں کو ملا کر ہماری تعداد پندرہ بیس بن جاتی تھی۔ چند دن بعد طے شدہ پروگرام کے تحت برادر ظفر عباس چشتی صاحب ہمارے کالج تشریف لائے اور کالج کے گراؤنڈ میں ہماری پہلی تاسیسی نشست ہوئی اور رسمی طور پر کالج آف کامرس سرگودھا میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا ایک فعال یونٹ بن گیا۔ کچھ عرصہ بعد سرگودھا و فیصل آباد ڈویژن کے غالبا نائب صدر برادر کاچو زاھد علی خان بھی تشریف لائے اور یونٹ کا باقاعدہ رابطہ ڈویژنل آفس فیصل آباد سے قائم ہو گیا۔ اس یونٹ سے بعد میں بڑی تعداد میں برادران منسلک ہوئے اور قومی و مذہبی خدمات سرانجام دیں۔ امید ہے کہ اب بھی یہ ایک فعال یونٹ ہو گا۔
سوال: امامیہ طلبہ تنظیم میں آپ کس کس مسوولیت پر رہے ؟۔
جواب: میں نے 1986- 87 کے تعلیم سال میں بی- کام کا امتحان پاس کیااور 1983 سے 1987 تک آئی ایس او پاکستان سرگودھا و فیصل آباد ڈویژن میں کامرس کالج یونٹ کے جوائنٹ سیکرٹری پھر جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری ادا کی اور پھر 1985- 86 کے تعلیمی وتنظیمی سال میں یونٹ صدر کی ذمہ داری ادا کی ۔ اس دور میں سرگودھا سطح پر فعالیت میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی مختلف کالجز میں یونٹ فعال ہوئے اور اس کے بعد 1986-87 میں تین اضلاع سرگودھا خوشاب اور میانوالی کے ڈویژنل نمائندہ ومسئول کی ذمہ داری سونپی گئی۔ یہ سرگودھا ڈویژن کو تنظیمی سطح پر فیصل آباد ڈویژن سے جدا کرنے کا تجربہ تھا جو کامیاب ہوا اور پھر سرگودھا ایک مستقل تنظیمی ڈویژن بن گیا۔
سوال: اپنے تنظیمی دور کے چند سرکردہ تنظیمی رہنماوں اور کارکنوں کے بارے بتائیے؟۔
1980 کا عشرہ اسلامی بیداری اور انقلابی فکر کی اشاعت کے لحاظ سے ایک سنہری دور تھا۔ عالمی سطح پر حضرت امام خمینی رح کی حکیمانہ قیادت ہمیں نصیب تھی اور انقلابِ اسلامی کا جوش و ولولہ تھا۔ پاکستان میں شہید قائد علامہ سید عارف حسین الحسینی رح جیسی عظیم شخصیت کی قیادت و رہبری کا دور تھا۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی جیسے کئی ایک مخلص جوان رہنما میدان عمل میں ملک کے طول وعرض میں فعالیت کر رہے تھے۔ دسیوں اہم تنظیمی شخصیات ابھر چکی تھیں۔اس دوران ملکی سطح پر سید ثاقب نقوی مرحوم، برادر اعجاز ملک، علامہ سید شبیر بخاری، برادر تصور نقوی، برادر سید امتیاز رضوی، برادر صفدر رضا بخاری، فیصل آباد ڈویژن سے برادر شہید ڈاکٹر قیصر عباس ، علامہ سید حسنین عباس گردیزی، برادر کاچو زاہد علی خان، برادر ظفریاب حیدر نقوی، برادر ہاشم رضا و برادر سید راشد عباس نقوی جیسے نوجوان رہنما متحرک تھے۔ سرگودھا میں ہمارے سینئر تو بہت تھے لیکن ان میں نمایاں سابق ڈویژنل صدور میں برادر ظفر عباس چشتی، برادر سید تنصیر حیدر شہید ، برادر سردار سجاد حسین میکن اور برادر سید سہیل کاظمی کے نام تھے۔ اس کے علاوہ برادر شفقت علی رضا قریشی ، برادر سید علمدار کاظمی اور برادر مرحوم غضنفر علی و وکیشنل کالج سے خواجہ زُہیر عباس و دیگر بھی اس وقت کے آئی ایس او سرگودھا کے مخلص کارکنان و رہنماوں میں معروف تھے۔ یہ زمانہ سرگودھا میں تنظیمی فعالیت کے اعتبار سے ایک منفرد زمانہ شمار ہوتا ہے۔ اس زمانے میں سرگودھا کے تقریبا تمام کالجز میں آئی ایس او کے فعال یونٹ تھے اور ایک تعداد مختلف علاقوں میں لوکل یونٹس کی بھی تھی۔ اس کے علاوہ سرگودھا سے میانوالی تک دسیوں محب یونٹس بھی فعال تھے۔ یہ سب کچھ اس دور کے تمام تنظیمی برادران کی اجتماعی محنت کا نتیجہ تھا۔
اس دور میں کامرس کالج سرگودھا کے مذکورہ برادران کے علاوہ گورنمنٹ کالج سے برادر شفقت بلوچ و برادر سجاد اصغر وبرادر ڈاکٹر اظہر جعفری وبرادر ملک افتخار حسین وبرادر سید نوید الحسن اور انبالہ مسلم کالج سے برادر علامہ ابوذر مہدوی و برادر فضل عباس خان وبرادر ملک صفدر علی و برادر ڈاکٹر گوہر تقی جبکہ پولی ٹیکنیکل کالج سے برادر علامہ سید ثمر عباس نقوی وبرادر امجد نقوی اور برادر غضنفر عباس جعفری، بھلوال سے برادر ڈاکٹر ثقلین حیدر ترابی و برادر مقصود شاہ اور برادر راجہ امجد اور خوشاب وجوہرآباد سے برادر مرحوم محمد اسحاق و برادر ملک غلام عباس وبرادر ملک ممتاز و برادر سید ابو الحسن شیرازی و برادر سید تنویر نقوی وبرادر سید توقیر نقوی و برادر سید مہدی شاہ و وبرادر عقیل حسین اور برادر بزرگوار غلام شبیر جوئیہ وغیرہ سب اس وقت کے آئی ایس او سرگودھا ڈویژن سے منسلک فعال تنظیمی مسئولین و کارکنان وممبران تھے ۔ اپنی یاداشت کا ساتھ نہ دینے کی وجہ سے جن برادران کے نام ذکر نہ کر سکا ان سے معذرت خواہ ہوں۔ کیونکہ ان کے علاوہ بھی بہت سارے مسئولین و کارکنان مختلف یونٹس میں فعال تھے۔
سوال: تنظیم میں شمولیت کے بعد آپ کی زندگی میں کیا مثبت تبدیلی آئی ؟۔
جواب: جب تک اس الہی تنظیم سے مربوط نہیں ہوا تھا تو اس وقت تک گلی محلے اور ہمسایوں اور برادریوں کے کے جھگڑے ذہن کو مصروف رکھتے تھے۔ لیکن جب آئی ایس او سے مربوط ہوئے تو یہ چھوٹے چھوٹے جھگڑے و اختلافات ہم وغم نہیں رہے ۔ آرزوئیں اور تمنائیں بدل گئیں ۔ اجتماعی ہم وغم اور سوچ وفکر غالب آئی ۔ اب ملت جعفریہ کے حقوق ، وطن کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں ، دینی و مذہبی ذمہ داریاں اور فرائض ، امت اسلامیہ کے مسائل اور عالمی سامراجی سازشوں کا مقابلہ جیسے چیلنجز کے ساتھ نمٹنا ترجیحات میں شامل ہو گئے ہیں۔ ذاتی مسائل و مشکلات کی طرح قومی مسائل و مشکلات کی ذمہ داری نبھانے پر توجہ مرکوز ہو گئی ہے۔ دین و مذہب کی تعلیمات سے آشنائی زیادہ ہوئی اور اللہ تعالی کے نظام ، انبیاء کرام علیہم السلام اور ائمہ طاہرین و اہل بیت اطہارؑ کی سیرت اور مشن سے تعلق اور رابطہ مضبوط تر ہواہے۔ دین و مذہب اور ملک وملت کی پاسداری کے جذبات سینے میں مچلنے لگے ہیں۔ مقصد خلقت و زندگی کے مفاہیم ایک حد تک سمجھ آنے لگے۔
سوال: موجودہ دور کے تنظیمی نوجوانوں کو کیا نصیحت کریں گے؟۔
جواب: میں ملت کے نوخیز نوجوانوں کی توجہ ایک نقطے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں کہ قومیں اجتماعی شعور کی بیداری اور قومی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے ترقی کی منازل طے اور اقوام عالم میں عزت واحترم اور اعلی مقام حاصل کرتی ہیں۔ قومی فکر و شعور فقط انفرادی زندگی گزارنے اور انفرادی ذمہ داریاں ادا کرنے سے ہرگز حاصل نہیں ہوتا بلکہ انفرادی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ اجتماعی زندگی گزارنے اور اجتماعی ذمہ داریاں ادا کرنے سے پیدا ہوتا ہے ۔ اجتماعی امور کی ادائیگی پھر تقاضا کرتی ہے کہ تمام اجتماعی ذمہ داریوں اور امور کو ایک ضابطے و قانون اور نظم و ضبط کے ساتھ منظم و مربوط انداز سے سرانجام دیا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کئے جا سکیں۔ اسی طرز عمل کو تنظیم اور نظم امر بھی کہتے ہیں۔ اسی اصول کی امیر المومنین حضرت علیؑ ہمیں تاکید کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: أُوصِیکُمَا وَ جَمِیعَ وَلَدِی وَ أَهْلِی وَ مَنْ بَلَغَهُ کِتَابِی بِتَقْوَى اللَّهِ وَ نَظْمِ أَمْرِکُم
اللہ تعالی ہمیں انفرادی واجتماعی ذمہ داریوں سے طریق احسن عہدہ بر آ ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور دنیا وآخرت میں سرخرو فرمائے۔