مدح صحابہ کی تحریک سے ناموس اہلِ بیت و صحابہ بل تک / تحریر: ح ا ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

برصغیر کے مسلمانوں نے جب متحد ہو کر 1905 میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور برطانوی استعمار کے خلاف آزادی کی تحریک شروع کی تو مسلمانوں کی یہ باہمی وحدت کانگریس کے لئے قابل قبول تھی نہ برطانوی استعمار مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی سیاسی قوت کو برداشت کر سکتا تھا۔  اس طرح مسلمانوں کی وحدت اور یکجہتی کو ختم کرنے کا پلان لانچ ہوا۔ صدیوں سے برصغیر کے مسلمان عزاداری امام حسین ؑ  مل کر منا رہے تھے۔ شیعہ سنی سب مجالس عزاء اور عزاداری کے جلوسوں میں شرکت کرتے تھے۔ صوبہ اترپردیش کا شہر لکھنو محبین اہلِ بیتؑ کا معروف علمی مرکز تھا۔ اردو ادب کے بڑے بڑے شعراء اور ادیب یہاں پروان چڑھے ۔یہ شہر اخوت اسلامی اور باہمی رواداری کا گہوارہ تھا۔

1906 کےمحرم الحرام میں اس علاقے کی تاریخ میں پہلی بار مکتب دیوبند کے کچھ علماء  نےمحرم الحرام کے ایام میں مدح صحابہ کی تحریک کا آغاز کیا اور شیعہ وسنی حسینیوں کے مد مقابل جلوس نکالنے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان جلوسوں میں بنی امیہ کیے حق میں نعرے بازی کی جاتی۔اسی سال  عاشورا کے دن ان کی اس روش کے باعث شہر میں مذھبی منافرت اور اشتعال پھیل گیا۔ حکومت وقت نے کئی ایک جلوسوں پر پابندی عائد کر دی۔ اسلامی ثقافت کے اس مرکز میں اب تفرقہ بازی کا لٹریچر چھپنے لگا جو پھر لکھنو تک محدود نہیں رہا بلکہ وادی سندھ میں بھی آیا۔

1920 میں مرزا حیرت دہلوی نے ایک کتاب لکھی جس کا عنوان کتاب شہادت تھا۔ جس میں حضرت امام علی علیہ السلام اور امام حسن مجتبی اور امام حسین علیہما السلام کی شان میں گستاخی کی گئی اور بنو امیہ کی ملوکیت کی وکالت کی گئی۔

1931 میں مکتب دیوبند کے عالم مولانا عبدالشکور لکھنؤی نےلکھنو میں ایک مدرسہ قائم کیا اور دوبارہ مدح صحابہ کی تحریک کے سلسلے کا آغاز کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب برصغیر  میں تحریک آزادی اپنے عروج پر تھی اور مسلم لیگ کی قیادت مسلمانوں کو متحد کرنے کی سرتوڑ کوششیں کر رہی تھی  ۔ مولانا عبدالشکور کے مدرسے سے عزاداری کے جلوس پر حملہ ہوا اور دس کے قریب عزادار شہید اور دسیوں زخمی ہوئے۔ شیعہ عقائد کے خلاف مدح صحابہ کے نام پر جلوس نکالے اور اشتعال انگیز نعرے لگوائے گئے۔ اس  اشتعال انگیزی کے نتیجے میں 1938 میں تنگ آکر شیعہ حضرات نے بنی امیہ پر تبرے کے جلوس نکالنے شروع کر دئیے۔ یوں مسلمان آپس میں لڑنے لگے۔ مختلف علماء کی کوششوں کے نتیجے میں بنو امیہ کے خلاف تبرے کے جلوسوں کا یہ سلسلہ 1939 میں شیعہ حضرات نے روک دیا ۔ البتہ مولانا عبدالشکور لکھنؤی پھر بھی صحابہ کے نام پر فتنہ انگیزی سے باز نہ آئے۔ آخر کار حکومت نے ان جلوسوں پر پابندی لگائی تو یہ سلسلہ رکا۔

1944 میں لاہور کے نواحی قصبے امرتسر میں تنظیم اہل سنت کے نام سے شیعہ مخالف دیوبندی جماعت کا قیام عمل میں لایا گیا۔ جب 11 اگست 1947 کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے تقریر کی اور ریاست کی نظر میں سب شہریوں کو بلا تفریق مذہب و مسلک مساوی قرار دیا تو اکابرین دیوبند کے اخبارات میں انکی اس تقریر کے خلاف بیانات جاری کئے گئے۔ یوں پاکستان میں ایک سرد جنگ شروع ہوئی۔ پھر پاکستان کے مختلف شہروں میں عزاداری امام حسینؑ کی مجالس اور جلوسوں پر حملے اور شیعہ نسل کشی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوا۔ مکتب دیوبند کے مفتیان نے شیعہ کی تکفیر کے فتوے دئے۔ اور دیوبندی مکتب کی تنظیموں نے شیعہ ٹارگٹ کلنگ ، بم دھماکے اور خود کش حملوں سے مساجد و امام بارگاہوں کو لہو لہان کیا۔ شیعہ مسلمانوں کو فقط شیعہ ہونے کے جرم میں بسوں سے اتار کر اور شناخت دیکھ کر بے دردی سے قتل کیا گیا۔ بعض شیعہ علاقوں پر لشکر کشیاں ہوئیں۔

آخر کار یہ تکفیری مسلح گروہ جن کی دیوبندی دینی مدارس نے پرورش کی اور ریاستی سرپرستی وحمایت بھی انہیں حاصل تھی ۔ یہ ملک دشمنوں قوتوں کے آلہ کار بن گئے۔ انہوں نے حکومتی مراکز اور حساس ادروں کے دفاتر پر حملے شروع کر دئیے۔ کبھی جی ایچ کیو پر حملہ کیا تو کبھی ائر بیسسز پر حملہ کئے ۔ فوجیوں کو قتل کر کے انکے سروں سے فٹ بال کھیلتے رہے۔ فوجی افسران کے بچوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کیا۔ انکی وحشت وبربریت سے تنگ آکر پاکستان کی عوام نے انہیں مسترد کر دیا۔ انکے خلاف پاکستانی اداروں نے آپریشنز  کیے۔ کبھی نیشنل ایکشن پلان اور کبھی رد الفساد اور کبھی ضرب العضب کے نام سے ان مسلح جتھوں کے خلاف اقدمات ہوئے۔ لیکن یہ انتہا پسند  پاکستان میں ایک پریشر گروپ بن چکے ہیں اور انکے سہولتکار پاکستان کی اسمبلیوں اور اداروں میں نفوذ کر چکے ہیں۔

جب شیعہ مذہب کے خلاف انکے سب حربے ناکام ہوئے اور شیعہ کو دیوار سے نہیں لگا سکے ،  جب قانون کو ہاتھ میں لینا اور اسلحہ کا استعمال بھی انکے لئے ممکن نہ رہا  تو انہوں نے پاکستان میں قائم شیعہ سنی وحدت کی فضاء کو خراب کرنے کے لئے چور راستوں سے اور اپنے سہولتکاروں کی مدد سے توہین اہل بیت و صحابہ بل ایوانوں میں پیش کیا۔ اہل بیتؑ ایسی ہستیاں ہیں کہ اگر کوئی مسلمان  نماز میں ان پر درود نہ پڑھے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے، اہل بیت کی عظمت کی گواہی اور ان سے مودت کا حکم قرآن مجید میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔ جہاں تک صحابہ کرام ہیں ۔ ان پر ایمان لانا یا درود بھیجنا کسی مسلک کے نزدیک واجب نہیں ہے۔ صحابہ کرام سب کے سب عادل ہیں اور انکی اطاعت واجب ہے؛ یہ فقط اہل سنت کے ہاں عقیدہ ہے شیعہ مذہب صحابہ کرام کے بارے میں وہی عقیدہ رکھتا ہے جو قران وسنت میں آیا ہے۔ جو رسول اللہ کے مخلص مجاہد و مومن و وفادار صحابی تھے؛ شیعہ ان کی تکریم و تعظیم کو ضروری سمجھتے ہیں۔ لیکن جن کو اہل سنت صحابی کہتے ہیں وہ قرآن وسنت کی رو سے سب عادل ہیں اور نہ ان سب کی اطاعت مسلمانوں پر واجب ہے۔ یہ شیعہ اور اہل سنت کے مابین اختلافی مسئلہ ہے۔ ہر مسلک کے پاس اپنے اپنے دلائل ہیں۔ ہر مسلک فقط اپنے مذہب کا پابند ہے۔ یہ قانون سازی کیونکہ اہل سنت کے مسلک کے مطابق ہے اس لئے انہیں قبول ہے لیکن کیونکہ یہ مذہب شیعہ کے مطابق نہیں اس لئے شیعہ اس بل کو مسترد کرتے ہیں۔  ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اہل بیت اطہارؑ اور صحابہ کرام کا نام استعمال کر کے بنو امیہ اور دشمنان اہل بیتؑ کا دفاع مقصود ہے اور ان کے جرائم چھپانے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ اس قانون میں صحابیت کی حدود معین ہیں نہ توہین کی کوئی تعریف کی گئی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں اس قانون سے  پاکستانی معاشرے کی یکجہتی متاثر ہوگی اور سماجی بندھن کمزور ہوگا۔ ایسے قوانین کی آڑ میں ملک میں ہر آئے دن کبھی دیگر مذہبی و مسلکی اکائیوں کے گھر جلائے جاتے تو کبھی ان کی عبادگاہیں مسمار کی جاتی ہیں۔ اس اور اس جیسے دیگر قوانین کے غلط استعمال کو روکنے کی تدبیر کرنے کی بجائے بغیر سوچے سمجھے اس قانون کو مزید سنگین بنانا تکفیری اور انتہا پسندی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے مترادف ہے۔

اگر یہ بل طاقت اور عددی برتری کے گھمنڈ میں 8 کروڑ شیعوں پر زبردستی نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر وہی ماحول بنے گا جو 1938 میں بنا تھا۔ اشتعال انگیزی اور نا امنی کی فضاء  ملک کو  تباہی کی طرف لے جا سکتی ہے۔

image_pdfSave as PDFimage_printPrint
Share this post

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے