زیادہ تر عظیم تاریخی تہذیبوں کی بنیاد مذہب پر تھی اور ان کی بنیاد ایک خاص مذہب کی تعلیمات پر رکھی گئی ۔ قرآن کریم کچھ تہذیبوں کے زوال کی وجوہات کو بیان کرتا ہے۔ قرآن کریم جو مسلمانوں کے لیے علم اور مذہبی تعلیمات کا سرچشمہ ہے، تہذیبوں کے زوال کی کچھ وجوہات پر غور وفکر کی دعوت دیتا اوراسلامی تہذیب کے لیے ایک روڈ میپ بھی بیان کرتا ہے۔ بہت سی تہذیبیں اور معاشرے ہیں جو پوری تاریخ میں مٹ چکے ہیں اور ختم ہو چکے ہیں۔ بعض اوقات ہمیں ان میں سے کچھ کے لیے نشانیاں مل جاتی ہیں اور ہمیں کچھ کی نشانیاں بھی نہیں ملتی ہیں۔
تہذیبوں کے زوال کی 9 اہم ترین وجوہات کی طرف اشارہ کرنے چاہوں گا۔ قرآن کریم کے نقطہ نظر سے تاریخی تہذیبوں کے زوال کے درج ذیل اسباب ہیں:
پہلا سبب: ناانصافی اور ظلم : قرآن کے نقطہ نظر سے کسی بھی قسم کے حق سے انحراف ظلم ہے ، اس میں اپنے آپ پر ناانصافی، دوسروں کے ساتھ ناانصافی، راہِ خدا سے ناانصافی شامل ہے۔ ظلم کی ان تینوں اقسام میں سے کوئی ایک قسم بھی پوری تہذیب کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کافی ہے۔
دوسرا سبب : انبیاء کے پیغام کا انکار : انبیاء کی دعوت کا انکار اور ان کی نبوت کا انکار تہذیبوں کے خاتمے اور ان کے زوال کے قرآنی اسباب میں سے ایک ہے جیسا کہ قرآن نے عاد، ثمود اور نوح علیہم السلام کے قصے میں بیان کیا ہے۔
تیسرا سبب : امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ترک کرنا :نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے اصول کو نظر انداز کرنے کا بھی معاشرے کی بقا یا تباہی کے ساتھ براہ راست تعلق ہے ۔ اخلاقی اقدار اور بدعنوانی کے خلاف جنگ سے لا تعلق ہونا معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔ قرآن کے مطابق بہترین قوم وہ ہے جو مسلسل خود کی بہتری اور اپنے اعمال اور طرز عمل کی اصلاح کا راستہ تلاش اور ساتھ ہی دوسروں کی اصلاح کی بھی کوشش کرے۔
چوتھا سبب : گناہوں کا ارتکاب اور اخلاق کا زوال ہے۔ اخلاقی زوال سماجی اور سیاسی زوال کی راہ ہموار کرتا ہے اور بالآخر تہذیبوں کے زوال کا باعث بنتا ہے۔ اخلاقی اقدار ہی معاشرے کی بقا کی ضمانت ہیں ورنہ اس معاشرے کا مقدر موت کے سوا کوئی نہیں ہوگا۔
پانچواں سبب دنیا اور زندگی سے محبت ہے۔ قرآن پاک انسان کو اپنی خواہشات کی پیروی کرنے اور دنیا سے چمٹے رہنے سے خبردار کرتا ہے۔
چھٹا سبب : غرور و تکبرہے۔ تکبر حقیقت کو جاننے اور پہچاننے سے روکتا ہے اور اسی مرض کی وجہ سے انسان مصیبت اور خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہیں کرتا۔
ساتواں سبب : نعمتوں کی توہین وانکار ہے۔ شکر نعمتوں کو بڑھاتا ہے اور کفر ان کو دور اور زائل کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال بنی اسرائیل ہےکہ قرآن مجید اس حوالے سے ان کی کہانی بار بار بیان کرتا ہے۔
آٹھواں سبب : مالی بدعنوانی اور کرپشن ہے۔ سود خوری ، خرید و فروخت میں دھوکہ دہی، تجارت میں دھوکہ دہی اور دیگر بدعنوانیاں تہذیبوں کے زوال اور بربادی کا باعث بنتی ہیں۔
نواں سبب : تفرقہ اور اختلاف ہے۔ قرآن کریم اتحاد کی اہمیت پر زور دیتا ہے اور لوگوں کے درمیان نفرت و تفرقہ سے خبردار کرتا ہے کیونکہ تفرقہ اور تقسیم کمزوریوں اور ناکامیوں کا باعث بنتی ہیں ۔