یوم نکبہ کیا ہے اور فلسطینیوں کی جدوجہدآزادی میں اس دن کی کیا حیثیت ہے؟۔ / ترجمہ: ح ا ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

  1. نکبہ کے لغوی معنی آفت اور  بڑی مصیبت کے ہیں ۔ برطانوی حکومت کی  طرف سے جاری کردہ اس کی اپنی خفیہ دستاویزات کے مطابق نکبہ کے ایام یعنی مئی ۱۹۴۸ کےدوران فلسطینیوں نے  اپنی آزادی کے لیے جتنی جنگیں صہیونیوں کے خلاف لڑیں ان سب میں فلسطینی  فاتح تھے ۔ لیکن آخر کار جب انکے پاس ایمونیشن ختم ہو جاتا  تو اس وقت برطانوی فوج کی مداخلت سے صیہونی  فلسطینیوں کے محاصرے سے نکل جانے میں کامیاب ہو جاتے  یوں صورتحال تبدیل ہوجاتی۔
  2. ان دستاویزات کے مطابق جن علاقوں کا  فلسطینی قبضہ  واپس حاصل کر لیتے وہاں پر موجودہ برطانوی فوج کے باقی ماندہ اسلحہ کے ذخائر ان فلسطینیوں کے  ہاتھوں لگ جاتے جس سے فلسطینیوں کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ ہوجاتا لیکن جلد ہی برطانوی فوج جو علاقے میں امن مشن پر مامور تھی مداخلت کرتی اور اسلحہ و دیگر کو برطانوی امن مشن کی ایمرجنسی فورسز فلسطینیوں سے واپس لے لیتیں جس کے نیتجے میں صیہونی دوبارہ حملہ کرتے اور فلسطینی مجبورا پسپا ہوجاتے۔  یعنی مجموعی طور پر ان تمام ایام میں برطانیہ کی جانبداری اور صیہونیوں کی پشت پناہی کے کئی ثبوت ہیں جس کیوجہ سے فلسطینی اپنی سرزمینوں کو صیہونیوں سے چھڑوانے میں ناکام رہے اور صیہونیوں کا قبضہ دن بدن بڑھتا گیا۔
  3. نکبہ کا دن صرف ۱۵ مئی ۱۹۴۸ کا دن نہیں بلکہ یہ دن ۱۹۴۷ سے بلکہ ۱۹۴۹ میں ہونے والے رودس معاہدہ تک نکبت کے ایام جاری رہے یعنی فلسطینیوں پر مصیبت و آفت کے ایام گزرتے رہے ہر آنے والے دن گزشتہ دن سے بڑھ کر آفت و مصیبت لیکر آتا۔
  4. صہیونیوں نے 1920 کے عشرے کے وسط سے فلسطین پر قبضہ کرنے کی منصوبہ بندی کی ۔ 1933 تک انکے پاس فلسطین کی سرزمین پر موجود ہر شخص ، ہر درخت،  ہر گاڑی ، ہر بندوق ، ہر جانور اور دکان و مکان جو فلسطینیوں کی ملکیت تھی اس کی اطلاعات جمع ہوچکی تھیں ۔
  5. فلسطین پر قبضے کے پہلے اقدام کے طور پر ۱۹۴۸ میں فلسطین میں قائم لائبریریوں پر قبضہ کیا  اور ان میں موجود علمی ذخائر کو لوٹ لیا گیا۔  
  6. فلسطینی ثقافتی عنوان سے عمدہ ترین مقام پر تھے ۔ اُس وقت 28 ادبی رسالے صرف فلسطین کے اندر سے شائع ہوا کرتے تھے۔ سینما گھر تھے۔ جنرل لائبریریوں کی تعداد  بہت زیادہ تھی ، تھیٹر تھے ، روزنامے و اخبار اور ریڈیو اسٹیشن تھے۔ بندرگاہیں ، فن تعمیر کی شاہکار عمارتیں تھیں۔ یہ فلسطینیوں کا وہ ورثہ تھا جو ان کو ایک متمدن  اور ترقی یافتہ قوم ثابت  کرتا ہے۔
  7. فلسطینی اخباروں ،رسالوں  اور لٹریچر میں اسرائیل نامی کسی لفظ کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں تھا۔اور نہ  ہی بالفور معاہدے کا کوئی خاص ذکر تھا۔ اس پورے ملک  کا نام صرف  فلسطین تھا حتی کے ناجائز قبضہ کے ابتدائی سالوں میں صہیونی بھی اپنے لٹریچر میں صرف  فلسطین ہی لکھتے تھے۔
  8. ایام نکبہ میں ۵۰۰سے زائد دیہات اور گاؤں جن سے فلسطینیوں کو ہجرت پر مجبور کیا گیا صہیونیوں نے مکمل طور پر تباہ کردئیے۔ اور ان دیہاتوں کے کسی قسم کے آثار باقی نہیں رہنے دئیے۔صیہونی چاہتے تھے ان علاقوں کے نام تاریخ کے اوراق سے محو ہوجائیں ۔
  9. برطانیہ نے نہ صرف بالفور معاہدے پر عمل نہیں کیا بلکہ برطانیہ کے اپنے فوجی جو صیہونیوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے برطانیہ نے صیہونیوں کو ان کا خون بھی معاف کر دیا نیز یورپ کے صیہونیوں کو فلسطین کی طرف ہجرت کی نہ صرف اجازت دی بلکہ سہولیات فراہم کیں۔
  10. ایک طرف صیہونیوں کی نسبت برطانیہ کا یہ رویہ جبکہ دوسری طرف فلسطینیوں کی نسبت یہ رویہ کہ جس کے پاس چاقو تک تھا اسے برطانوی فوج نے گرفتار کیا اور جیل میں ڈال دیا۔ بعض دستاویزات شاہد ہیں کہ صیہونیوں نے ان ایام میں برطانیہ کی مدد سے اسلحہ بنانے کے زیر زمین کارخانے تک بنا لیے۔
  11. سنہ ۱۹۳۶ میں چلنے والی فلسطینیوں کی تحریک بہت موثر تھی اور عین ممکن تھا کہ اسرائیل کے قیام کا یہ منصوبہ وہیں دفن ہوجاتا لیکن ملک سعود اور دیگر بعض عرب حکمرانوں کی مداخلت کا فائدہ صیہونیوں کو ہوا۔ عرب شیوخ کی مداخلت سے  جنگ بندی کیوجہ سے  فلسطینیوں کو نقصان جبکہ صیہونیوں کو تازہ سانس ملی۔بہت سے صہیونی یہودیوں کے عربوں کے ساتھ گہرے تعلقات قائم ہو چکے تھے۔ اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انھوں نے فلسطینیوں کے قتل وخون خرابے کے ہولناگ ہولی کھیلی اور خونی سانحات کا ارتکاب کیا۔

بشکریہ : عربی نیوز سائٹ اضاءات

image_pdfSave as PDFimage_printPrint
Share this post

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے