پاکستان میں اقتدار کی حالیہ جنگ کے محرکات / تحریر: ح ا ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

پاکستان   میں اس وقت حصول اقتدار کی اندھی جنگ جاری ہے۔ اس جنگ کے مندرجہ ذیل فریق ہیں:

  • مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں  13 جماعتوں کا حکومتی اتحاد اور شہباز شریف کی حکومت ۔ نیز ان سب کی پشت پر لندن میں بیٹھا عدالتوں سے مفرور ملزم نواز شریف ۔
  • عمران خان اور ان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف اور ان کے اتحادی و عام پاکستانی عوام کی اکثریت۔
  • آرمی چیف ، فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ۔ انٹیلیجنس ایجنسیاں اور  پولیس وغیرہ۔
  • ملک کی اعلی عدالتیں

آگے بڑھنے سے پہلے یاد رکھئے کہ  اگست 2018 کو پاکستان تحریک انصاف انتخابات جیت کر اقتدار میں آئی اور اس پارٹی کے سربراہ عمران خان وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بعد ازاں  ان کی حکومت 9 اپریل 2022 کو عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ختم کر دی گئی۔

حالیہ بحران پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے سے شروع ہوا۔ اس لئے آئیے سب سے پہلے اس حکومت کا خاتمے کے اسباب کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مجموعی طور پر پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے دو طرح کے اسباب ہیں:_

  • بیرونی اسباب
  • اندرونی اسباب

سب سے پہلے بیرونی اسباب کا جائزہ لیتے ہیں۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بیرونی اسباب :

واقعات و شواہد کے مطابق عمران خان کے ساتھ امریکہ کی ناراضی ان کی حکومت کے خاتمے کا اصلی سبب بنی۔

یہ اصلی سبب مندرجہ ذیل اسباب کا مجموعہ تھا۔

  • امریکیوں نے پاکستان سے فوجی اڈے مانگے عمران خان نے سابقہ حکمرانوں کی روش کے برخلاف اڈے دینے سے صاف انکار کر دیا۔
  • اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کہا گیا اس نے انکار کر دیا۔
  • روس اور چین سے دوری اختیار کرنے کا کہا گیا اور یہ کہا گیا کہ روس کا دورہ نہ کرو لیکن خان نے انکار کر دیا۔
  • یوکرین روس جنگ کے حوالے سے جب اقوام متحدہ میں قرار داد پیش ہوئی تو پاکستان نے امریکہ کا ساتھ نہیں دیا ۔ جب امریکہ اور یورپ نے اعتراض کیا تو عوامی جلسے میں عمران خان نے جواب دیا کہ ہم آپ کے غلام نہیں۔

اس کے علاوہ یمن جنگ ، فلسطین پر اسرائیلی حملوں پر موقف اور اسلاموفوبیا کے حوالے سے بھی امریکہ کو عمران خان کے غیرلچکدار رویے کا سامنا کرنا پڑا ۔

حکومت کے خاتمے کے اندرونی اسباب:

  • پاکستان کے معروف کرپٹ سیاستدان :

عمران خان نے کرپشن کے خاتمے اور پاکستانی خزانہ لوٹنے والوں کے احتساب اور نئے اسلامی فلاحی پاکستان کے بیانیے پر الیکشن جیتا تھا۔ اس نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد گذشتہ 30 سال سے حکومت کرنے والی پارٹیوں کے سربراہان کے وہ کیسسز جو جود عدالتوں میں ان لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف کئے ہوئے تھے۔ ان کی بنیاد پر نواز شریف،  شہباز شریف اور انکے خاندان کے دیگر مطلوب افراد اور اسی طرح آصف علی زرداری و مولانا فضل الرحمن وغیرہ نیز دیگر کرپٹ سیاستدانوں کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہونے پر مجبور کیا۔ عدالتوں نے جب ان سیاستدانوں سے انکی جائیدادوں اور بنک بیلنس، آمدن کے ذرائع کے بارے میں سوال کیا تو انکے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہ تھا۔ دوسری طرف متعلقہ حکومتی احتسابی اداروں کے پاس انکی مالی کرپشن اور عہدوں کے ناجائز استعمال اور بدعنوانیوں کے ناقابل تردید ثبوت موجود تھے۔

نواز شریف کو اعلی عدالت پہلے ہی سابقہ نااہل قرار دے کر اسکی حکومت ختم کر چکی تھی ۔  پھر اسے مجرم قرار دیکر جیل بھیج دیا گیا تھا اور بعد ازاں وہ مقتدر اداروں کی آشیر باد سے ایک مریض کا روپ اختیار کر کے  بیرون ملک علاج کے بہانے سے چلا گیا۔ پھر وہاں جاکر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ملاقاتیں کیں اور عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے ایجنڈے پر کام شروع کر دیا۔

نواز شریف کی طرح اس کا بھائی شہباز شریف،  اسکے بیٹے ، نواز شریف کے بیٹے اور بیٹی سب کے خلاف احتساب عدالت کے پاس کرپشن و بدعنوانی کے ثبوت تھے۔ نواز شریف کے دونوں بیٹے اور شھباز شریف کا بیٹا تو بیرون ملک مقیم ہو گئے۔ جبکہ نواز شریف کی بیٹی اور اسکی سیاست کی وارث مریم نواز جیل چلی گئی۔ رژیم چینج آپریشن کے بعد جس دن شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا گیا اس دن عدالت عظمی میں اسے قانونی سزاء دینے کے فیصلہ کا اعلان ہونا تھا۔ اسی طرح آصف زرداری اور فضل الرحمن کی بدعنوانیوں اور مالی کرپشن کی فائلیں  کھلنی تھیں۔ چنانچہ یہ سارے سیاستدان ان دنوں بیمار ہو کر اپنے علاج معالجے میں مصروف ہو گئے۔ اس دوران ان  سب نے ملکر کر عمران خان حکومت کے خاتمے کے لئے باہمی مشورے اور کو ششیں شروع کر دیں ۔ یہ جانتے تھے کہ عمران خان کی حکومت ان کیلئے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

  • سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ :

پاکستان میں آرمی چیف ایک طاقتور ترین شخص ہوتا ہے اور اس سے ھم آہنگی کے بغیر سیاسی قیادت کوئی اہم فعالیت انجام نہیں دے سکتی ۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ھم آہنگی سے ہی عمران خان بر سر اقتدار آئے تھے اور  ابتدائی سالوں میں ملک کی فوجی و سیاسی قیادت میں ہم آہنگی اور افہام وتفہیم  کی فضاء قائم تھی۔ بعد ازاں  جب آرمی چیف کی ملازمت کی مدت پوری ہوئی تو وہ وزیراعظم سے تمدید مدت چاہتے تھے۔ تمدید تو ہو گئی لیکن فضاء پہلے کی طرح سازگار نہ رہی۔ عمران خان اور جنرل باجوہ کے درمیان  دوریاں پیدا ہونا شروع ہوگئیں۔ عمران خان کے سیاسی مخالفیں نے اس فرصت سے فائدہ اٹھایا اور آرمی چیف سے قریب ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

اس قربت کے نتیجے میں مہنگائی و بےروزگاری وغیرہ کا بہانا بنا کر عمران خان کی حکومت کو گرانے کا منصوبہ تیار کیا گیا۔ ان دنوں کورونا و خطے کے جنگی حالات کی وجہ سے مہنگائی ایک عالمی مسئلہ بن چکا تھا۔ عمران خان کے مخالف سیاستدانوں نے آرمی چیف کی حمایت سے میڈیا وار شروع کر دی اور رائے عامہ کو پی ٹی آئی حکومت کے خلاف منظم پروپیگنڈہ مہم شروع کر دی گئی۔ ساتھ ہی  سیاستدانوں کو عدالتوں سے ریلیف ملنا بھی شروع ہو گیا اور اسی ریلیف کے تسلسل میں بعد ازاں نواز شریف لندن پہنچ گیا اور دیگر کرپٹ سیاستدان بھی یکے بعد دیگرے جیلوں سے باہر آ گئے۔

عمران خان نے ایک طرف تو امریکہ وغرب  کا اعتماد کھو دیا تھا اور دوسری طرف اندرون ملک سارے کرپٹ عناصر "خان” کے خلاف متحد ہو گئے تھے ۔ دوسری طرف بقول عمران خان،  جنرل باجوہ اور سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی وغیرہ اپنے روابط سے امریکہ کو  یہ باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ عمران خان تمہارا دشمن ہے اور مستقبل میں امریکہ کو مزید نقصان دے سکتا ہے اس کے چین،  روس وغیرہ کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں اور یہ ملک کو امریکہ مخالف بلاک میں لے جائے گا۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب امریکہ اور اسکے یورپی اتحادی ، اس وقت کے پاکستان کے آرمی چیف اور نیز  پی ڈی ایم نے ملکر پی ٹی آئی کی حکومت گرانے کیلئے  مشترکہ اقدامات کئے۔ ان اقدامات کیلئے فنڈنگ نواز شریف،  آصف زرداری اور امریکہ کرتے رہے۔ اب آئیے ان اقدامات کا جائزہ لیتے ہیں۔

عمران خان حکومت کے خاتمے کے لئے کئے جانے والے اقدامات:

  • سب سے پہلے عمران خان کی حکومت گرانے کے لئے اس کے حکومتی اتحادیوں مسلم لیگ قائد اعظم ، مہاجر قومی موومنٹ  اور بلوچستان عوامی پارٹی کو اس سے دور کرنے کی کوشش کی گئی تاہم  یہ حربہ ناکام ہو گیا۔
  • متشدد مذہبی گروہوں کے ذریعے حالات خراب کئے گئے طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، تحریک لبیک اور دیگر متشدد  گروہوں کو میدان میں اتارا گیا ۔ یہ حربہ بھی خوب استعمال کیا گیا۔
  • مہنگائی و بیروزگاری اور نا تجربہ کار حکومت کا الزام لگا کر لانگ مارچ کئے گئے، بلاول بھٹو نے کراچی سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کیا اور مریم نواز شریف وحمزہ شہباز شریف نے لاہور سے اسلام آباد تک کا لانگ مارچ کیا لیکن عوام نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔
  • مولانا فضل الرحمن نے دو دھرنے دئیے ، مولانا فضل الرحمن دوبار اپنے دینی مدارس کے طلباء اور پارٹی کارکنان کی ڈنڈا بردار فورس کو اسلام آباد لائے۔ وہ بھی ناکام ہوئے۔ بالآخر تحریک عدم اعتماد کا پتہ کھیلا گیا۔
  • رژیم چینج آپریشن اور تحریک عدم اعتماد :

امریکہ و پی ڈی ایم کے مابین طے پایا کہ اب پارلیمنٹ کے ممبران کو خریدا جائے اور حکومت کے اتحادی بھی توڑے جائیں۔ جس کے لئے کھل کر ہارس ٹریڈنگ ہوئی، ممبران پارلیمنٹ کو خریدنے کی بولیاں لگیں اور یہ سب کچھ برسر عام ہوا اور یہ سب میڈیا میں بیان بھی ہوا۔ اسی دوران تحریک انصاف کے کچھ پارٹی ممبران بھی خریدے گئے۔

دوسری جانب امریکہ کی وزارت خارجہ کے  سیکرٹری ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر کے ساتھ ہونے والی ایک میٹنگ میں دھمکی دی کہ اگر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہوئی تو پاکستان کو سنگین نتائج کا سامنا کرے پڑے گا ۔  آرمی چیف اور مقتدر اداروں پر امریکا نے پریشر ڈالا کہ اس تحریک عدم اعتماد کو ہر صورت میں کامیاب ہونا چاہئیے۔  اسلام آباد میں امریکی سفیر نے بھی متعدد پارلیمنٹ ممبران سے ملاقاتیں کیں تاکہ لوگوں کو عمران خان حکومت کا مخالف بنایا جائے اور انکی تصاویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی رہیں۔

8 مارچ 2022 کو یہ سازش آخری مرحلے میں داخل ہوئی اور پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ۔ پارلیمنٹ میں کشمکش شروع ہوئی اور آخر کار 9 اپریل 2022 کو بیرون ملک و اندرون ملک سازشی و کرپٹ عناصر کے گٹھ جوڑ سے عمران خان کی حکومت ختم کر دی گئی۔ اس وقت  پاکستانی عوام میدان میں اتر آئے۔  عوامی جلسوں اور احتجاجات میں  روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔ ان عوامی احتجاجات نے عمران خان کو پاکستان کی تاریخ کا مقبول ترین لیڈر بنا دیا۔ پاکستان ہم غلام نہیں ہیں  کے نعروں سے گونج اٹھا اور پورے ملک میں ایک انقلابی فضاء و ماحول نے جنم لے لیا۔  موجودہ انقلابی حالات میں کرپٹ حکمران ان کے ہینڈلرز اور پشت پناہی کرنے والے سب   پریشان دکھائی دے رہے ہیں ۔ اسی طرح ضمنی انتخابات میں بھی حکومتی اتحاد کو شرمناک شکست سے دوچار ہونا پڑا ۔ عمران خان کا حکمرانوں سے انتخابات کرانے کا مطالبہ  ہے۔

 وہی حکمران جو کل اپنی لانگ مارچ اور دھرنوں میں انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے اب انتخابات کے نام سے خوفزدہ ہیں۔ حکمران کہتے ہیں کہ ملک کے دو بڑے صوبوں اور کشمیر و گلگت بلتستان میں تو تمہاری حکومت ہے اگر انتخابات کے مطالبے میں سچے ہو تو یہ اپنی حکومتیں اور اسمبلیاں توڑ دو اور تمہاری پارٹی وہاں سے مستعفی ہو جائے تو ہم دستوری وآئینی طور پر 90 دن میں الیکشن کرائیں گے۔

 عمران خان نے آئینی ماہرین سے مشاورت کے بعد  اس چیلنج کو بھی قبول کر لیا اور  پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ” صوبہ پنجاب” اور دوسرے ایک صوبے "صوبہ خیبر پختون خواہ” کی حکومت سے مستعفی ہو گئے اور وہاں نگران حکومتیں بن گئیں، اب  ان کا  فریضہ 90 دن میں انتخاب کروانا ہے ۔

اس کے بعد امپورٹڈ حکومت اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی بقول عدالت عظمی کے ایک جج کے کہ جس شخص پر 70 سال میں ایک کیس بھی نہ تھا اس پر اس مختصر عرصے میں کیسے 145 کیسسز بنا دئیے گئے۔ اس وقت حکومتی مشینری اور اس کے شریک جرم ادارے عدل و انصاف اور شفافیت سے کام لینے کے بجائے لوگوں کا سوفٹ وئیر اپڈیٹ کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنی کرپشن و بدعنوانی کے خلاف اٹھنے والی  ہر آواز کو طاقت کے ساتھ دبانے میں مصروف ہیں۔ سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت پوری ہو گئی، وہ ریٹائرڈ تو ہو گئے لیکن انکے بعد بھی ان کی باقیات کی صورت میں موجودہ اسٹیبلشمنٹ کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

عمران خان نے بار بار کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اگر پی ڈی ایم کی پشت پناہی نہ کرتی تو انکی عوامی و جمہوری حکومت ختم نہ ہوتی اور نہ ہی اس امپورٹڈ حکومت کی صورت میں کرپٹ لوگوں کا جتھہ برسر اقتدار آتا۔ اس وقت ملک بدترین اقتصادی ،  آئینی ودستوری ، ملکی سلامتی اور سیاسی بحرانوں کی دلدل میں پھنس چکا ہے۔ امپورٹڈ حکومت اپنے آقاوں اور سہولت کاروں سمیت اپنے سب دعووں میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ کرنسی روز بروز بری طرح گر رہی ہے ، اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچی ہیں۔ فقر وفاقہ سے عوام خود کشیاں کر رہے ہیں ۔ دوسری طرف سیلاب نے ملک کے بہت بڑے حصے اور آبادی کو بری طرح متاثر کیا ہے اور عوام بہت پریشان ہیں۔  امپورٹڈ حکومت عوامی مشکلات کو حل کرنے کے بجائے  اپنے اقتدار اور کرسی کو بچانے کیلئے، ریاست و آئین کے خلاف جنگ لڑنے میں مصروف ہے۔

 عدالت عظمی نے 14 مئی کو دستور و آئین کے مطابق پنجاب و خیبر پختون خواہ میں انتخابات کروانے کا حکم دیا تھا ۔

 عدالت عظمی کے فیصلے شہباز شریف حکومت نہیں مان رہی اور ایسے یکے بعد دیگرے اقدامات کر رہی ہے جن سے ملک خانہ جنگی اور تباہی کی طرف چلا جائے، مارشل لاء لگ جائے، ایمرجنسی نافذ ہوجائے، اور قانون وآئین معطل ہو جائے۔ انہیں صرف یہ پریشانی ہے کہ کسی طرح عمران خان دوبارہ بھاری اکثریت سے انتخابات جیت کر نہ آ جائے۔ 

 حق گوئی کرنے والے ایک صحافی ارشد شریف کو پہلے ملک چھوڑنے پر مجبور کیا گیا پھر اسے امارات سے نکلوایا گیا اور پھر پراسرار طریقے سے کینیا میں شہید کر دیا گیا۔ کچھ دیگر محب وطن صحافی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں اور بعض جیلوں میں ڈال دئیے گئے ہیں۔

 سیاستدانوں اور صحافیوں کو بالکل ننگا کر کے تشدد کیا جاتا ہے اور ان کی برہنہ ویڈیوز بنائی جاتی ہیں ۔گویا اس وقت پاکستان پر بدترین فاشٹ ڈکٹیٹر شپ مسلط ہے۔ اس ڈکٹیٹر شپ نے عمران خان کو عدالت کے احاطے سے گرفتار کیا ۔ حالانکہ انہیں معلوم تھا کہ یہ ملک کا مقبول ترین لیڈر ہے اس طرح اس کی گرفتاری سے ملک کا امن وامان تباہ ہو گا۔ بعد ازاں عدالت عظمی نے بھی اس گرفتاری کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ اس پر انہیں مجبورا عمران خان کو رہا کرنا پڑا ۔ جب 9 مئی 2023  کو عدالت کے احاطے سے رینجرز نے غیر قانونی طور پر عمران خان کو پرتشدد انداز میں گرفتار کیا  پاکستانی قوم نے سڑکوں پر شدید ردعمل دکھایا ۔ یہ ردعمل ہر شہر میں شدید احتجاج کی صورت میں تھا۔  حکومتی بالخصوص آرمی کے مراکز بھی ان احتجاجات کی زد میں آئے۔ 

اس وقت 3000 سے زیادہ تحریک انصاف کے کارکن اور لیڈر گرفتار ہو چکے ہیں ۔ دوسری طرف امپورٹڈ وزیراعظم ، اور ان کے وزیر داخلہ چاہتے ہیں کہ تحریک انصاف پر پابندی لگائی جائے اور اسے ایک دہشتگرد پارٹی قرار دیا جائے۔ اس لئے وہ پارٹی اور پارٹی کی لیڈرشپ کا سوفٹ وئیر اپڈیٹ کرنے کیلئے سارے سفاکانہ  حربے استعمال کر رہے ہیں۔

 یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ  امپورٹڈ حکومت نے اپنے تخریب کاروں کو آرمی ہاوسسز بالخصوص کور کمانڈر لاہور کے گھر کو جلانے اور تباہی پھیلانے کا ٹاسک دے رکھا ہے تاکہ وہ تحریک انصاف پر الزام لگا کر اس تحریک کو کچل سکیں اور آئندہ 10 سال کے لئے کم از کم عمران خان کو جیل میں ڈال سکیں۔

پی ڈی ایم حکومت نے اپنی ہی حکومت میں  15 مئی کو شارع دستور پر احتجاج اور دھرنے کی کال دے رکھی ہے تاکہ انکے خلاف توہین عدالت کے کیس کی کاروائی روکی جا سکے۔ کیونکہ الیکشن کروانے کے حکم کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انہیں ڈر ہے کہ عدالت انہیں سخت سزا دے کر نااہل قرار نہ دیدے۔ پاکستان میں اس وقت حکومت کے خلاف آواز  بلند کرنے کے جرم میں چادر وچاردیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے۔ ماووں بہنوں کو برسر عام تشدد کا نشنہ بنایا جا رہا ہے۔ بچوں پر ظلم وتشدد کیا جا رہا ہے۔ اور انہیں بھی جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔

پاکستانی عوام  اس وقت فرسودہ نظام سے نجات کی جنگ لڑ رہے ہیں غیرملکی تابعیت اور غلامی سے نجات چاہتے ہیں ۔ عزت ووقار سے جینا چاہتے ہیں۔ لوگ بیرونی طاقتوں کے نوکروں اور امپورٹڈ  حکمرانوں سے نجات چاہتے ہیں ۔ یہ نہتے عوام صرف اور صرف آئین وقانون کی بالا دستی چاہتے ہیں۔

اب کچھ عمران خان پر قائم شدہ بوگس مقدمات کی بات بھی ہو جائے۔

  • عمران خان  کے خلاف مقدمات کی کہانی :

اس پر پاکستان کے معروف صحافی اوریا مقبول نے مدلل تبصرہ کیا ہے جس کی پاداشت میں حکومتی اداروں نے انہیں اٹھا لیا اور نہ جانے کس ٹارچر سیل میں ان کا سوفٹ وئیر اپڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ ۔ اسی طرح  معروف صحافی عمران ریاض خان بھی ان دنوں لاپتہ کسی ٹارچر سیل میں سچ بولنے کی پاداش میں زیرعتاب ہیں۔  

صحافی اوریا مقبول بیان کرتے ہیں کہ حکومت نے جب پوری کوشش کر لی کہ کہیں سے عمران خان کو بدعنوان اور کرپٹ ثابت کر کے بدنام کیا جائے  اور انکی شخصیت کشی کی جائے  تو پوری تلاش کے بعد انہیں مندرجہ ذیل تین کیسزز ملے ۔

پہلا توشہ خانہ کیس اس کیس میں انہیں فقط ایک گھڑی ملی ، عدالت نے کہا کہ باقی حکمرانوں اور لوگوں کا بھی بتاو ۔ وہاں تو حکمران اتحاد خود پھنستا نظر آیا۔ امپورٹڈ حکمرانوں اور ان کے سہولت کاروں  نے  گھڑیاں ہی نہیں بلکہ بی ایم ڈبلیو کاریں اور حتی ہر صحافی تک نے گھڑیاں توشہ خانہ سے لی ہوئی تھیں۔ یہاں حکمرانوں کو اپنے لالے پڑ گئے ۔

دوسرا کیس پارٹی فنڈنگ کا کیس تھا ۔ اس کیس میں الیکشن کمیشن کو اتنا اختیار ہوتا ہے کہ اگر انکے نزدیک کوئی پارٹی فنڈنگ غیر قانونی ثابت ہو جائے تو زیادہ سے زیادہ وہ وہ فنڈ ضبط کر سکتے ہیں اور سزا اس قسم کی دے سکتے ہیں کہ ہم آپکا انتخابی نشان چھین لیں گے۔ اگر بلے کے نشان کو چھین بھی لیتے ہیں تو پھر وہ انتخابی نشان وکٹ رکھ لے گا۔ اس سے بھی حکومت کو مایوسی ہوئی کیونکہ اس طرح کا الزام عمران خان کی ذات پر نہیں بلکہ انکی پارٹی پر آنا تھا۔

تیسرا انتہائی غلیظ الزام کہ جس میں بعض علماء تک شریک تھے وہ ٹیری آن والا تھا۔ ایک بیرون ملک مقیم نوجوان لڑکی نے دعوی کیا کہ وہ عمران خان کی بیٹی ہے  لیکن اسے عمران خان اپنی بیٹی تسلیم نہیں کرتا۔ اس کیس میں اسے پاکستان آنا اور عدالت میں کیس کرنا پڑتا تھا ۔ اس کیس سے بھی خان کو  کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا سکتے تھے کیونکہ ڈی این کے ذریعے فیصلہ ہونا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی روش شروع ہو جائے تو آئے دن سیاستدانوں کے خلاف ایسے کیسسز بنیں گے اور فقط ڈی این اے ہی آخر میں نسل کو ثابت کرے گا۔ یہ کیس بھی فیل ہوا ۔ جب یہ تینوں کیس فیل ہوئے تو اب آخر میں یہ موجودہ کیس نکالا گیا کہ جس میں عدالت کے احاطے سے خلاف قانون عمران خان کو اٹھا لیا گیا۔

یہ کیس القادر یونیوسٹی کے ٹرسٹ کی زمیں کا کیس تھا ۔ احتساب عدالت کا قانون کہتا ہے کہ یہ انکوائری کیس ہے جب تک انکوائری مکمل نہ ہو تو اس وقت تک تفتیش کے لئے عمران خاں کو نہیں بلایا جا سکتا ۔ اس کیس میں خلاف قانون اس لئے گرفتار کیا گیا تاکہ ثابت کیا جائے کہ عمران خان بھی بدعنوان اور کرپشن میں ملوث ہے ۔ حلانکہ کرپشن وہاں ہوتی ہے جہاں کوئی شخص خود اپنے منصب و اختیار سے ذاتی فائدہ حاصل کرے۔ جبکہ اس کیس میں وہ تو اہک تعلیمی ٹرسٹ کا ٹرسٹی ہے اور وہ پیسہ یا زمین اس کے ذاتی اکاونٹ میں نہیں بلکہ ٹرسٹ کے پاس ہے اور حکمران اسے ضبط بھی کر سکتے ہیں۔

نتیجہ: عمران خان نے قوم کو حقیقی آزادی کا شعور دیا ہے، اس نے پہلی مرتبہ کرپشن اور دھونس کے خلاف عوام کو زبان عطا کی ہے۔ ہم امریکہ و یورپ کے غلام نہیں ہیں اور ملک کے اندر غیر ملکی مداخلت قابل قبول نہیں کا بیانیہ دیگر سیاستدانوں کے مقابلے میں  عمران خان کا منفرد بیانیہ ہے۔ عمران خان نے سیاست کی دنیا میں قوم کو کرپشن سے پاک حکمرانی، امریکہ و یورپ کی غلامی سے آزاد ریاست اور عزت و وقار کا راستہ دکھایا ہے۔ اس راستے میں عمران خان تنہا نہیں بلکہ دنیا کا ہر منصف مزاج انسان اور پاکستان کا ہر باشعور شہری عمران خان کے ساتھ ہے۔

image_pdfSave as PDFimage_printPrint
Share this post

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے