موجودہ صورتحال میں امور کون سلجھائے گا؟ (اختصاریہ) /ح ا  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

جب ریاست کے سارے ستون ، مقتدر طبقے اور حکمران خود جانب دار ہوں تو پھر امور کون سلجھائے گا؟  جو کچھ ہوا کیا وزیر داخلہ اور حکومت اس کی ذمہ دار نہیں؟۔ وزیر داخلہ کا لب ولہجہ اور دھمکیاں ، اتحادی جماعتوں کا طرز حکمرانی مافیا کے افراد کی طرح ہے؛ سیاستدانوں اور ذمہ دار حکمرانوں کی طرح نہیں۔وزیر داخلہ ٹی وی پر کہتا ہے کہ اب یا ہم رہیں گے یا عمران خان۔ رینجرز کے ذریعے  عدالت کے احاطے سے چیئرمین پی ٹی آئی اور عوام میں خاصے مقبول رہنما عمران خان  کی غیر قانونی گرفتاری کیا وزیر داخلہ کے حکم یا مرضی کے بغیر ہو سکتی ہے؟۔کیا حکمران نہیں جانتے تھے کہ اس قسم کی احمقانہ کاروائی کا کیا ری ایکشن آئے گا ؟۔ حساس مراکز پر تعینات فورسز کس کے حکم سے ہٹا دی جاتی ہیں؟ تاکہ لوگ کھل کر تباہی کریں ۔ نقاب پوش تخریب کار جو دیکھے گئے انکے حلیے اور روش بتا رہی ہے کہ وہ گلو بٹ تھے۔ گلو بٹ کلچر کس نے متعارف کروایا ؟۔نہتے عوام پر سیدھی گولیاں چلانے والے اور پچاس سے زیادہ شہریوں کے قاتل کس لباس میں تھے اور کون تھے۔؟ پاکستانی عوام اور فوج کو آمنے سامنے لانے کا ایجنڈا ایک طویل عرصے سے کس کا ہے؟۔

حکومت ایک تیر سے کئی شکار کرنا چاہتی تھی۔ انکا طرز حکمرانی بتا رہا ہے کہ انہیں ملک اور اس کے عوام کی ہرگز پرواہ نہیں ۔وہ فقط اپنے کیسز سے جان چھڑانا اور ذاتی مفادات اٹھانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ ملک میں تمام تر ملکی بحران اتحادی حکومت کی وجہ سے ہے آئین شکن اور تقدس کو پامال کرنے والا پی ڈی ایم اتحاد ہی سب صورتحال کا ذمہ دار ہے۔اگر ملک میں  الیکشن آئین کے مطابق کروا دئیے جاتے تو یہ سب کچھ نہ ہوتا۔ عوام کا خون جائز ہے لیکن عوام کے قاتلوں کی کوئی شناخت نہیں کر رہا ۔ نہتے عوام کے قاتلوں کو گرفتار کرنا اور عدالت میں لانا تو دور کوئی انکے ورثاء سے اظہار ہمدردی کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ جبکہ عمارتوں، جمادات و حساس مراکز پر تجاوز کرنے والوں کی شناخت بہت جلد ہو گئی ہے۔ اور ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو محض عمارتوں پر حملے کرنے کے الزام میں پکڑ لیا گیا ہے لیکن انسانی جانوں کے قاتلوں کی طرف کسی کی توجہ نہیں ہے۔ پاکستان کی بیٹیوں کی بے حرمتی ، چادر و چاردیواری کے تقدس کا پائمالی، ان پر وحشتناک تشدد سب جائز ہو چکا ہے اور قانون یہاں پر مکمل طور پر خاموش ہے۔

حقائق سے پردہ اٹھانے والے جرأت مند صحافی یا قتل ہو رہے ہیں یا پابند سلاسل  کردئیے گئے ہیں۔ ان پر بدترین تشدد ہورہا ہے اور یہی سلوک مخالف سیاستدانوں اور کارکنوں کے خلاف بھی اپنایا جا رہا ہے۔ محض چند دنوں کے اندر اتحادی حکومت نے سیاسی مخالفین پر ریکارڈ مقدمات درج کئے ہیں۔ اختیارات اور قانون کا غلط استعمال ہو رہا ہے۔ اسے ریاستی دہشتگردی سے تعبیر نہ کیا جائے تو پھر کیا کہا جائے؟۔ اس درمیان ایسا کوئی بھی نظر نہیں آتا  جو انانیت اور غرور و تکبر کے بت توڑ کر ملک کو بچانے اور حالات کو معمول پر لانے اور انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے۔ عدالت عظمی  سیاسی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کی مسلسل تاکید کر رہی اور اس درمیان چند دفعہ عدالتی حکم پر سیاسی جماعتیں مل بھی بیٹھیں تاکہ اس تمام تر بحران کا کوئی سیاسی حل نکالا جائے لیکن کسی انا اور ضد آڑے آگئی اور وہ مذاکرات بھی ناکام ہوگئے۔

اس جنگ میں کوئی فاتح نہیں ہو سکتا ۔ نہ حکومت نہ اپوزیشن اور نہ اسٹیبلشمنٹ لیکن نقصان وخسارہ وطن عزیز پاکستان کا ہو رہا ہے۔ ریاست کمزور ہو رہی ہے۔ عوام کا اعتماد ریاستی ادارے سے اٹھ چکا ہے جسے بحال کئے بغیر آگے چلنا مشکل ہو گا۔ ایکدوسرے کے خلاف طاقت کے بے دریغ استعمال اور انتقامی کاروائیوں سے عوام کے دلوں میں  ریاستی  اور حکومتی اداروں اور سیاسی و دیگر طاقتوں کے لیے محبت نہیں مزید نفرتیں پیدا ہونگی۔ آج فیصلہ کریں یا کل مذاکرات اور قانون کی حکمرانی و عملداری اور جمہوریت کی بحالی کے بغیر آپ اس بحران سے نہیں لکل سکتے۔ جتنی دیر ہو گی ریاست کا اتنا ہی نقصان  زیادہ ہو گا جس کا تمام تر خمیازہ پاکستانی قوم کو بھگتنا پڑے گا۔

image_pdfSave as PDFimage_printPrint
Share this post

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے