یہ دن سرزمین مقدس فلسطین اور قدس شریف پر ناجائز قبضے اور ظلم وناانصافی کے ذریعے اسرائیل نامی صیہونی ریاست کے قیام اور مقامی لوگوں کی حق تلفی کی یاد میں ہر سال ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو منایا جاتا ہے. اس دن بے بس فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے اسرائیلی مظالم کے خلاف دنیا بھر میں تمام حریت پسند بالخصوص مسلمان اور فلسطینی مہاجرین مظاہرے کرتے اور ریلیاں نکالتے ہیں۔ دنیا بھر کے انسانوں کے ضمیر جگانے کے لئے کانفرنسوں ، اسرائیل مظالم اور فلسطینیوں کی مظلومیت کی تصاویر کی نمائش گاہوں و دیگر اسی طرح کی سرگرمیوں کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔
1948 سے پہلے دنیا کے نقشے پر اسرائیل نامی کوئی ریاست نہیں تھی. صدیوں سے فلسطین میں فلسطینی آباد تھے . ان میں اکثریت مسلمانوں کی تھی. اسکے بعد اکثریت کے لحاظ سے دوسری آبادی عیسائیوں کی تھی اور جبکہ یہودی اقلیت بھی آباد تھی. یہ ملک بھی تقریبا چار سو سال خلافت عثمانیہ کے زیر اثر رہا۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد اس سرزمین پر برطانوی استعمار نے قبضہ جما لیا۔ مسلمانوں نے آزادی کی تحریکیں چلائیں اور اسی اثنا میں ایک پرانی صہیونی سازش کہ جس میں امریکا اور یورپی ممالک سب یہودیوں کے ساتھ شریک تھے ، اسے عملی جامہ پہنانے کے اقدامات تیز کر دئیے گئے۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کی زمینوں پر مختلف حیلوں بہانوں سے یہودیوں کے قبضے کروائے گئے۔ مقامی باشندوں پر ظلم وتشدد کیا گیا اور انہیں ہجرت پر مجبور کر دیا گیا۔ یہودیوں کے فلسطینیوں پر ظلم، لوٹ مار اور عزتوں پر حملوں کے سبب پہلے ملک کے اندر ہجرت ہوئی اور پھر انہیں ہمسایہ ممالک میں ہجرت پر مجبور کیا گیا۔ انکی جگہ دنیا کے مختلف ممالک میں آباد یہودیوں کو مراعات دے کر لایا گیا اور سرزمین فلسطین پر آباد کیا گیا۔
سرزمین فلسطین اور قدس کی اہمیت
سرزمین مقدس فلسطین سب مسلمانوں کے لئے ایک مقدس سرزمین ہے. جس میں ہزاروں انبیاء کرام علیہم السلام کے مزارات ہیں. حدیث شریف میں آیا ہے کہ ” بیت المقدس کی تعمیر انبیاء علیہم السلام نے اپنے ہاتھوں سے کی ہے اور اس سرزمین کا کوئی چپہ ایسا نہیں جہاں انھوں نے نمازیں نہ پڑھی ہوں اور عبادت نہ کی ہو. ” بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے جس کی طرف رسولِ کریم صلی الله علیہ وآلہ وسلم اور انکے صحابہ نے نمازیں پڑھیں. اسکے بعد اللہ نے کعبہ شریف کی طرف رخ کر کے نمازیں پڑھنے اور قبلہ قرار دینے کا حکم دیا۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ معراج کی رات انبیاء کرام نے ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امامت میں اس مسجد میں نماز پڑھی تھی۔
یوم القدس منانے کا مقصد!
1- فلسطینی عوام کے قانونی حقوق کا مطالبہ کیا جائے. جو مسلسل 70 سال سے ظلم وستم کا نشانہ بن رہے ہیں.
2- ان در بدر ٹھوکریں کھانے والوں کے حقوق کا مطالبہ کیا جائے جنہیں مجبورا جان بچا کر ہجرت کرنا پڑی اور آج بھی انکے گھروں کی چابیاں انکے پاس ہیں اور وہ واپس جانا چاہتے ہیں. لیکن انکے گھر لوٹ کھسوٹ کا شکار ہوکر تباہ ہو چکے ہیں اور جب یہ نہتے واپس اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں سامنے سے زہریلی آنسو گیس کے شیل فائر کیےاور ان پرسیدھی گولیاں چلائی جاتی ہیں. لیکن کوئی ظالم اسرائیلی حکومت کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا.
3-یہ دن اس لئے منایا جاتا ہے اور جلوس نکالے جاتے ہیں تاکہ فلسطینی مسلمانوں کو باور کرایا جائے کے مسلم عوام آپکے ساتھ ہیں.
4- یہ احتجاج اس لئے بھی کئے جاتے ہیں تاکہ فلسطین نامی مسلمانوں کی مملکت کا نام دنیا کے نقشے سے مٹا نہ دیا جائے. کیونکہ کل وہ مسلمان جو زبانی کلامی ہی سہی انٹرنیشل فورمز پر فلسطین کی حمایت کرتے تھے. آج امریکی سازش کا حصہ بن کر فلسطین پر غاصب صہیونی ریاست سے سفارتی تعلقات اور اقتصادی تعاون کی باتیں کر رہے ہیں. امریکہ نے شہر قدس شریف میں اپنا سفارت خانہ منتقل کر کے اسے یروشیلم کا کہہ اسرائیل کا دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کر دیا ہے.
5- یوم القدس کے دن مسلسل کئی دہائیوں سے محاصرے میں زندگی بسر کرنے والے غزہ کے مسلمانوں اور 70 سال سے کیمپوں کی زندگیاں گزارنے والوں کو حق دلوانے کے کیس کی حمایت کی جاتی ہے.
یوم القدس کا آغاز کب ہوا؟
جب فلسطین پر قبضہ ہوا اور صیہونی ریاست کی بنیاد رکھی گئی پورے جہانِ اسلام میں شور اٹھا۔ عرب اور مسلمان حکومتیں حرکت میں آئیں. مسلمانوں نے اسرائیل کے خلاف پچاس ، ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں ملکر تین جنگیں لڑیں. لیکن اسرائیل کو امریکا اور یورپ کی پشت پناہی حاصل تھی جنگوں کے نتیجے میں فلسطین کے ہمسایہ ممالک کے کچھ علاقوں پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا.
مسلمانوں نے امت مسلمہ کو متحد کرنے کے لئے او آئی سی اسلامی ممالک کے تعاون کی تنظیم کی بنیاد رکھی. فلسطین اور قدس اس فورم کے ہر اجلاس کے ایجنڈے میں ایک محوری حیثیت رکھتا تھا. اچانک مصر کے صدر انور سادات نے ستر کی دھائی میں نے عرب اور مسلمانوں کی متحدہ جدوجہد چھوڑ کر اسرائیل کو قبول کر لیا۔ اور اسکے ساتھ معاہدے پر دستخط کردئیے جس سے فلسطینی کاز کو بہت بڑادھچکا لگا۔
چند سال بعد جب ایران میں امام خمینی ؒ کی رہبری میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا تو انھوں نے فلسطین اور قدس کی اہمیت کے پیش نظر اگست 1979 میں آنے والے ماہ رمضان مبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس کے طور پر دنیا بھر میں منانے کا اعلان کردیا. اور ساتھ ساتھ تہران کے اسرائیلی سفارت خانے کو فلسطینیوں کے حوالے کیا اور اس پر فلسطین کا پرچم لہرایا. امام خمینیؒ کے اس جرتمندانہ اقدام سے فلسطین اور قدس کاز کو بہت تقویت ملی اور آج دنیا بھر کے مسلمان اس دن کو بھرپور انداز سے مناتے ہیں۔
انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد فلسطینی آزادی کی تحریک کو ایک مضبوط سہارا ملا. عرب حکمران انور سادات کے بعد پشت پردہ فلسطین اور قدس کو بیچ کر اسرائیل سے تعلقات بنانے لگے. لیکن دوسری طرف انقلاب اسلامی ایران کے بعد فلسطین میں عوامی مقاومت کو تقویت ملی اور پھر آہستہ آہستہ پورے خطے میں اسرائیلی ظلم وتجاوزات وناجائز قبضوں اور امت مسلمہ کے خلاف معاندانہ رویے کا مقابلہ کرنے کے لئے مقاومت کا بلاک وجود میں آیا. مقاومت کے وجود میں آنے کے بعد وہ اسرائیل جو فرات سے نیل تک قبضہ کرنے کا اعلان کر چکا تھا آج مقاومت کے خوف سے اپنے شہروں کے گرد دیواریں کھڑی کر رہا ہے. قدس شریف کی برکت اور فلسطینی کاز پر پوری دنیا کے مسلمان اپنے باہمی اختلافات بھلا کر یوم القدس مناتے نظر آتے ہیں جو فلسطینی جدوجہد آزادی کی تقویت کا ایک مضبوط ذریعہ ہے۔