پاکستان آبادی کے لحاظ سے مسلم دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اور اس ملک کے شہریوں کی اکثریت مذھبی اعتبار سے اہل سنت ہیں ۔ جبک شیعہ مذھب کے شہریوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔ شیعہ کی تعداد کسی لحاظ سے کم نہیں اور یہ غیر موثر نہیں ہیں۔ پاکستان میں شیعہ مذھب کے پیروکاروں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔ یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ عرب ممالک میں مصر کے علاوہ کسی بڑے سے بڑے عرب ملک کی کل آبادی پاکستانی شیعہ شہریوں سے زیادہ نہیں ہے۔ اور سب خلیجی ممالک کہ جن میں سعودی عرب، کویت ، امارات ، بحرین ، قطر اور سلطنت عمان شامل ہیں انکی کل آبادی 5 کروڑ کے قریب ہے۔ جبکہ ہمارے ملک میں تقریبا ساڑھے 6 کروڑ سے زیادہ شہریوں کا تعلق مذھب شیعہ سے ہے۔ انہیں دنیا کی کوئی طاقت بھی ختم نہیں کر سکتی۔ اور نہ ہجرت پر مجبور کر سکتی ہے۔ انکا تعلق مکتب کربلا اور امام حسین علیہ السلام سے ہے یہ کبھی بھی ذلت کی زندگی قبول نہیں کر سکتے۔ یہ ہمیشہ ظلم و نانصافی سے ٹکرانے والے لوگ ہیں۔ اتنی بڑی تعداد کو دیوار سے نہیں لگایا جا سکتا ۔ انہیں احساس محرومی سے دوچار کرنا درحقیقت 30% سے زیادہ اس ملک کی آبادی کو محرومیوں کا طوق پہنانا ہے۔ ایسا سوچنا ایک خطرناک کھیل اور سازش ہو سکتی ہے۔
شیعہ وسنی اسلام کے دو بازو ہیں ایک بازو کو قلم کرنا یا مفلوج کرنا اس ملک کے اسلامی جسم کو اپاھچ کرنا ہے۔ ہمارے بزرگوں کی روایت یہی رہی ہے اور وہ ہمیشہ یہی تعلیم دیتے رہے ہیں کہ اپنے مذھب کو چھوڑو نہیں اور دوسرے کے مذھب کو چھیڑو نہیں۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ شیعہ اور سنی دونوں قدیمی مذھب ہیں۔ جہاں انکے مشترکات بہت زیادہ ہیں وہاں بعض نظریات و عقائد و احکام شرعیہ میں انکے مابین اختلاف پایا جاتا ہے۔ جو لوگ وحدت واتحاد کے علمبردار ہوتے ہیں وہ مشترکات تلاش کرتے ہیں۔ اور اختلافی مسائل کے حل کے لئے رواداری کے جذبے کو فروغ دیتے ہیں ۔ کیونکہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا بھی ارشاد گرامی ہے: ” أُمِرْتُ بِمُدَارَاةِ النَّاسِ كَمَا أُمِرْتُ بِتَبْلِيغِ الرِّسَالَةِ "۔ کہ مجھے لوگوں سے رواداری سے پیش آنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس طرح مجھے رسالت کی تبلیغ کا حکم دیا گیا ہے اور اس فکر اور سوچ کے مد مقابل جن کا ایجنڈا فتنہ وفساد ہوتا ہے وہ شیعہ وسنی کے مابین پائے جانے والے بعض اختلافی نظریات وافکار اور عقائد واحکام جیسے مسائل کو ہوا دیتے ہیں۔ خواہ انکا تعلق سنی مذھب سے ہو یا شیعہ مذھب سے در اصل وہ دشمنوں کے شعوری یا لاشعوری طور پر الہ کار ہوتے ہیں۔
ماضی میں مذہبی اختلافات کو محراب و ممبر ، کتاب و رسالے ، خطاب و مناظرے اور وعظ وتبليغ کے ذریعے بیان کیا جاتا تھا۔ اہل علم و دانش علمی دلائل پیش کرتے تھے۔ اور ہر ایک آزادانہ اپنی سوچ اور فکر کی ترویج کرتا تھا۔ اس درمیان ریاست کا کردار ایک شفیق باپ ک ہوتا تھا۔ ریاست یا حکومت کسی خاص مذھب کے ترجمان نہیں ہوتے تھے جس سے یہ مسائل قومی سلامتی کے لئے خطرہ نہیں بنتے تھے۔ لیکن کچھ عرصے سے ریاست کا بھی ایک خاص مذھب بنانے کی کوشش ہو رہی ہے۔ گذشتہ چار دہائیوں سے انتہاء پسند اور متعصب مزاج لوگوں کے اقتدار کے ایوانوں پر پہچنے اور انکے نفوذ کے بعد یہ کام ریاستی مشینری کی سرپرستی میں ہو رہے ہیں اور اب قانون کی طاقت سے ایک مخصوص مسلک باقی مسالک کے پیروکاروں کو دبانا اور انکے لئے عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتا ہے۔ مسلکی تسلط کی سوچ کے حامل افراد اور گروہ ایک تسلسل کے ساتھ اپنے مخالف مذھب ومسلک کے خلاف سازشیں کرنے اور فتنوں کو ہوا دینے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف ملک تاریخ کے بدترین معاشی اور سیاسی بحران میں مبتلا ہے اور دوسری طرف یہ انتہاء پسند امن وامان کی فضاء کو مزید گھاؤ لگانے پر تلے ہیں۔
بدقسمتی سے حکمرانوں کی نااہلی ونالائقی سے ہمارے ملک میں بیرونی عناصر کو سیاہ و سفید ہر دھندا کرنے کی اجازت ہے۔ ہمارے ملک کے اہم فیصلے اسلام آباد کی بجائے واشنگٹن، لندن اور ریاض میں ہونے لگے ہیں۔ ملی اور قومی مفادات کو پس طاق رکھ کر ہمارے حکمران طبقے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کو ترجیح حاصل ہوچکی ہے۔ سیاسی عدم توازن اور خطے میں ہونے والی جنگوں کے نتیجے میں ہمارے ملک میں نیشنل و انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی میں دھشتگردی اور مذھبی انتہاء پسندی اور علاقائی فتنوں اور تعصبات کو تقویت ملی ہے۔
پاکستان پر اس ملک کے سب شہریوں کا برابر کا حق ہے۔ ان کا جو بھی مذھب و مسلک اور دین ہو۔ تحریک پاکستان میں شیعہ مذھب کے پیروکاروں کا بہت کلیدی کردار تھا۔ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بانی پاکستان کا تعلق بھی شیعہ مذھب سے تھا۔ یہ ملک اسلام کی حاکمیت کے لئے حاصل کیا گیا تھا۔ اور اس بات پر اتفاق تھا کہ یہاں ہر مذھب کے پیروکاروں کو مکمل آزادی حاصل ہو گی۔ اور کسی خاص مذھب و مسلک کو مسلط ہونے کا حق نہیں ہوگا۔ 1973 کا آئین پاکستان بھی اسی بات کا ضامن ہے۔ کسی مسلک اور فرقے کے غلبے کی سوچ کو تمام شہریوں پر مسلط کرنا ملک میں خانہ جنگی کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔ جس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔
پاکستان میں اقلیت و اکثریت کی جنگ ملک دشمن قوتوں کا ایجنڈا ہے۔ یہ خطرناک سوچ گذشتہ چار دہائیوں سے ہمارے ملک کے طول وعرض میں زیر قاتل کی طرح سرایت کر رہی ہے۔ جسے غافل اکثریت اور اقلیت کو سمجھنا ہو گا۔
اس ملک میں جو بھی قانون سازیاں ہوئیں اور ہوں گی عددی اکثریتی مذہب کے لئے تو فی الحال کوئی خطرہ نہیں کیونکہ وہ ہر فورم پر بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ لیکن خدشہ اور خطرہ ہمیشہ عددی لحاظ سے اقلیتی مذھب کے پیروکاروں کو رہا ہے کہ کہیں اقتدار کے ایوانوں میں نفوذ کر کے یا پہنچ کر مذھبی انتہاء پسند اور تنگ نظری کے
شکار عناصر اپنے مسموم نظریات و افکار کو مسلط کرنے کے لئے اس زہر قاتل کو کیپسول میں ڈال کر اپنے ایجنڈے کی تکمیل نہ کریں۔
اس کی تازہ مثال توہین صحابہ ترمیمی بل ہے۔ توہین کے قوانین پر عملدرآمد کی گذشتہ تین دہائیوں کا تجربہ یہی بتاتا ہے کہ ان قوانین کو ہمیشہ عددی لحاظ سے اقلیت کو دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخی مذہبی اختلافات کو توہین و تنقیص کا جامہ پہنا کر شرانگیزی پھیلائی گئی ہے۔ توہین کے نام پر جعلی اور جھوٹے مقدمات گویا ایک پوری داستان ہے جس کے خلاف مذہبی و دینی اقلیتیں عرصہ دراز سے سراپا احتجاج ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر قتل و کشتار کی داستان بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ایسے میں آئین پاکستان میں دی گئی مذہی آزادیوں کے تحفظ کی ٹھوس ضمانت فراہم کیے بغیر قوانین میں ترمیم اور مزید سخت گیری فتنے کا ایک نیا باب کھولنے کے مترادف ہے۔ ایک کثیر اور متنوع سوچ فکر اور مذاہب کے حامل معاشرے میں خاص مسلک کی شرعی تعبیر کو نافذ کرنے کا جو آغاز ہوا ہے وہ کسی بھیانک خانہ جنگی کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔
ایوان اقتدار میں بیٹھے لوگ ہوش کے ناخن لیں اور ایسے قابل مذمت مسلکی قوانین بنا کر مذہبی انتہاء پسندی کو مزید ایندھن فراہم نہ کریں۔ ایسے قوانین ہر ذی شعور کے نزدیک ہمیشہ مسترد ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔