شام کے صدر بشار الاسد کا مارچ میں دورہ امارات اور اب اچانک دورہ تہران عالمی اور علاقائی حالات میں آنے والی تبدیلیوں پر نظر رکھنے والے افراد کی توجہ کا مرکز ہے۔ اور ان افراد کے اذہان میں کئی ایک سوالات جنم لے رہے ہیں۔ امریکہ ، اسرائیل، ترکی، عرب و یورپی اتحادی جس شامی صدر کے خلاف صف آراء ہوئے اور اسے سرنگوں کرنے آئے تھے وہ آج اپنے اتحادی ممالک کے دورہ جات کرکے اپنی فتح کا اعلان کر رہا ہے ۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا مقصد تھا کہ شام کو کمزور کرکے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ گریٹر اسرائیل کے راستے میں موجود ایک بڑی رکاوٹ اور فلسطینی مزاحمت کے لیے لائف لائن ملک شام کو راستے سے ہٹا دیا جائے لیکن تقریبا ایک عشرے پر محیط جنگ میں فتح کے بعد نہ صرف شامی صدر کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا بلکہ شام کا مزاحمتی صلاحیت اور کردار میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ عالمی سامراج اور اس کے حواری جس شام کو دنیا میں تنہا کرنا چاہتے تھے آج دنیا کے چند اہم ممالک کے دارالحکومت میں اس کے گرمجوشی سے استقبال اس بات کی علامت ہیں کہ شام کے دشمن ناکام و نامراد ٹھہرے ہیں۔ عرب و مغربی ممالک جنہوں نے دمشق سے اپنے سفارتے عملے واپس بلا لیا تھے وہ اعلانیہ یا خفیہ پیغامات اور دورہ جات کے ذریعے دمشق کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال اور سفارت خانے کھولنے کے خواہاں ہیں۔ امریکی قیادت میں عالمی سامراج اور اس کے حواریوں نے دنیا کے 80 ممالک سے دہشت گرد شام میں اتارے تھے جب ان کو شام میں عبرتناک شکست ہوئی اور وہ واپس اپنے اپنے ملکوں کی طرف فرار ہوئے تو دنیا پریشان نظر آئی؛ اسی دن سے وہ ممالک شام کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوششیں کرتے نظر آئے۔
شام کے صدر کے دورہ امارات سے پہلے اماراتی وزیز خارجہ خفیہ اور اعلانیہ شام کے کئی دورے کر چکا ہے ۔ سعودی ، مصری اور دیگر عرب اور پورپی ممالک کے وفود کی خبریں بھی میڈیا میں گردش کرتی رہی ہیں۔ شام کے صدر بشار الاسد اماراتی قیادت کی رسمی دعوت پر امارات گئے تھے اسی طرح الجزائر ، تیونس اور عراق سمیت کئی عرب ممالک کی طرف سے عرب لیگ کے بانی رکن شام کی عرب لیگ میں واپسی کا مطالبہ بھی سامنے آچکا ہے۔ امارات کی طرف سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے بعد ملک شام کے صدر کو دورے کی رسمی دعوت اور بین الاقوامی روابط میں توازن ایجاد کرنے کی پالیسی اختیار کرنے سے اسرائیل کی بہت سی توقعات پر پانی پھر چکا ہے۔ مزاحمتی محاذ کی سرزمین شام پر فتح سے دنیا کو واضح پیغام مل چکا ہے کہ اب امریکہ سپر پاور نہیں رہا اور اسکے سب اتحادی شکست خوردہ حالت میں ہیں اور خطے میں انکی برتری کا غرور ٹوٹ چکا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای دام ظلہ نے شام کے صدر بشار الاسد کے ساتھ ملاقات میں فرمایا کہ شام کی فتح و کامرانی میں آپ کی شخصیت و شجاعت اور بلند حوصلے کا بنیادی کردار ہے ۔ اور انہیں بلند حوصلوں سے آپ تمام مقبوضہ علاقوں کو آزاد کروائیں گے۔ انھوں نے شام کی غیرتمند اور بہادر عوام اور فوج کی استقامت اور قربانیوں کو بھی سراہا۔ شام کے صدر کا حالیہ دورہ ایران بین الاقوامی حالات کے تناطر میں آنے والی تبدیلوں ، شام وعراق سمیت روس، یوکرائن جنگ ، یمن و فلسطین کی تازہ ترین صورتحال اور دیگر چیلنجز کے لحاظ سے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی کے ساتھ ملاقات میں شام کے صدر بشار الاسد نے کہا کہ ایران اور شام کے باہمی تعاون اور تعلقات نے اسرائیل کو محصور کرکے پیش قدمی سے روک دیا ہے۔ شام کے صدر کا دورہ ایران یقینا سیاسی، معاشی اور عسکری حوالے سے دونوں ممالک کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ اس وقت شام تعمیر نو کی طرف بڑھ رھا ہے جس میں اقتصادی طور پر ایرانی کمپنیوں کے لئے سب سے زیادہ مواقع میسر آنے کی امید کی جارہی ہے۔ شام امریکہ کی طرف سے شدید معاشی پابندیوں کی وجہ سے ایران سے انرجی اور تیل سمیت بنیادی ضروریات زندگی خصوصا غذائی اجناس میں مزید تعاون کا خواہشمند ہے۔ دوسری طرف یقینا ایران کے امریکہ سمیت عالمی طاقتوں سے ہونے والے مذاکرات ونتائج واثرات بھی زیر بحث آنا متوقع ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق رہبر انقلاب اسلامی سے یہ دو طرفہ ملاقات بڑے خوشگوار موڈ میں تقریبا ایک گھنٹہ جاری رہی ۔ اس کے علاوہ شام کے صدر کی تہران میں دوسری اہم ملاقات ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کے ساتھ ہوئی۔
اس دورے سے دنیا کو پیغام ملا ہے کہ شام کا بحران اختتامی مرحلے میں داخل ہو چکا ہے۔ مزاحمتی محاذ طاقت کے توازن میں حریف پر برتری ثابت کر چکا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی کمزور ہو چکے ہیں ۔ جتنا پروپیگنڈہ امریکہ نواز میڈیا نے کیا تھا وہ سب کا سب مکر اور جھوٹ تھا ۔ امریکہ اور اسکے سب اتحادیوں کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہو چکا ہے اور پورے خطے کے عرب ومسلم وغیر مسلم عوام امریکہ اور اسکے اتحادیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ امریکہ اب زیادہ دیر اس خطے میں نہیں رہ سکتا۔ خطے کے آئندہ اور مستقبل کے فیصلے مقاومت کے بلاک کی مرضی سے ہونگے۔ ذلت کے دور خاتمہ اور عزت کے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس ابھرتے ہوئے مقاومت کے بلاک کی سربراہی رہبر انقلاب اسلامی کے پاس ہے اور بشار الاسد اپنی استقامت وشجاعت وحکمت سے عرب دنیا کا ایک ہیرو بن کر ابھرا ہے۔
مشرق کی عالمی طاقتیں بھی مقاومت کے بلاک کے سات ہم آہنگ نظر آرہی ہیں اور دنیا کا عالمی نظام تک قطبی سے نکل کر متعدد اقطاب میں تقسیم ہورہا ہے یعنی اس کے بعد دنیا میں کسی ایک عالمی طاقت کی بجائے کئی ایک مضبوط علاقائی اور عالمی طاقتیں ہوں گیں۔ اس جدید نظام میں مزاحمتی بلاک اور اسے کے اتحادیوں کا رول بہت اہم حیثیت اختیار کرتا جائے گا۔
شام کے صدر کی جانب سے امارات کے بعد تہران کے دورے سے ایک اہم پیغام یہ بھی جاتا ہے کہ اگر عربوں کے ساتھ شام کے تعلقات دوبارہ بحال ہو رہے ہیں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اب شام ایران سے دور ہوتا جا رہا ہے ۔ بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات جو انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد امام خمینی ؒاور مرحوم حافظ الاسد کے دور سے اسرائیل و سامراج کے خلاف مشترکہ موقف کی بنیاد پر استوار ہوئے تھے آج بشار الاسد کے زمانے میں اگلے مرحلے میں داخل ہو کر مزاحمتی محاذ کی تشکیل و تقویت اور ایرانی و شامی اور دیگر شہداء کے مقدس خون کے ملاپ سے مزید مضبوط و مستحکم ہوگئے ہیں۔