گزشتہ ہفتے کی سیاسی خبروں میں وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کو خاصی مقبولیت ملی کہ: ” تم کیا سمجھتے ہو، ہم تمہارے غلام ہیں کہ تم جو کہو گے ہم مان لیں گے؟۔” گزشتہ اتوار پاکستان میں تعینات یورپی ممالک کے ۲۲ سفارتی مشنز کے سربراہوں نے وزیر اعظم عمران خان کو ایک خط لکھا جس میں روس -یوکرائن جنگ میں روس کی مخالفت اور امریکہ کی حمایت کا مطالبہ کیا۔ عمران خان نے نہیں معلوم سفارتی طریقہ کار کے مطابق ان کو باقاعدہ خط لکھ کر جواب دیا یا نہیں لیکن ایک سیاسی اجتماع میں مغربی ممالک کے نمائندوں کے خط کے جواب میں کہا: تم کیا سمجھتے ہو ہم تمہارے غلام ہیں کہ تم جو کہو گے ہم مان لیں گے؟۔ ہم تمہارے غلام نہیں ہیں۔
وزیراعظم عمران خان کے اس جرات مندانہ موقف کی بازگشت مغرب و مشرق ہر دو طرف سنائی دی۔ ذرائع ابلاغ سے لیکر عالمی رہنماوں تک سب وزیراعظم پاکستان کے اس موقف کی طرف متوجہ ہوئے۔ امریکی استعمار مخالف بلاک میں سے حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے وزیراعظم پاکستان کے اس جرات مندانہ موقف کو گزشتہ روز کی اپنی تقریر میں بہترین اور انتہائی شجاعانہ موقف قرار دیتے ہوئے لبنانی حکومت سے بھی تقاضا کیا کہ وہ امریکی دباو کے سامنے پاکستانی وزیر اعظم کی طرح جرات مندانہ موقف اختیار کریں۔
سید حسن نصراللہ نے ۴ شعبان ، حضر ت اباالفضل العباس بن علیؑ کے یوم ولادت ،جس دن کو زخمیوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے کے موقع پر تقریب سے اپنے خطاب میں لبنانی حکومت کی امریکہ نواز پالیسیوں کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم پاکستان کے اس جرات مندانہ موقف کو دہرایا۔ انہوں نے اپنے اس خطاب میں سانحہ جامع مسجد و امام بارگاہ پشاور کی بھی مذمت کی اور شہداء کے لواحقین کے ساتھ اظہار ہمدردی کیا۔ ذیل میں سید حسن نصراللہ کے اس اہم خطاب سے چند اقتباس پیش کئے گئے ہیں۔
سید حسن نصراللہ نے سانحہ جامع مسجد و امامبارگاہ پشاور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
"يوم الجمعة الماضي في باكستان في بيشاور صلاة جمعة يأتي انتحاري ويفجر نفسه ويقتل عشرات الشهداء ومنهم امام المسجد، وعشرات الجرحى والعالم كله يسكت، ومن الطبيعي ان يسكت لأن هؤلاء التكفيريين الانتحاريين هم صنيعة الـ سي اي اي، هم صنيعة أمريكا، هم خدم المشروع الأمريكي، يجب أن يسكت العالم لأن أميركا وأدوات أميركا في الموضوع.”
"پاکستان میں گزشتہ جمعے کے روز پشاور میں جب لوگ نماز جمعہ ادا کر رہے تھے ، ایک خود کش حملہ آور آیا اور آکر خود کو دھماکے سے اڑا لیا ۔ اس المناک حادثے میں درجنوں نمازی شہید ہوگئے ہیں۔ جس میں مسجد کے امام بھی شہید ہوگئے ہیں۔ شہداء کے علاوہ سینکڑوں نمازی زخمی ہیں ۔ لیکن آپ نے دیکھا پوری دنیا اس ظلم پر خاموش ہے۔ دنیا کے لیے اس ظلم پر خاموشی معمول ہے کیونکہ یہ خودکش تکفیری سی آئی اے کی پیداوار ہیں۔ دہشت گردی اور یہ دہشت گرد خود امریکہ کی پیداوار ہیں۔ یہ تکفیری لوگ امریکی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ دنیا کو اس ظلم پر خاموش رہنا چاہیے کیونکہ اس ظلم میں امریکہ اور امریکہ کے آلہ کار سب شامل ہیں۔”
حزب اللہ لبنان کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے پاکستان سمیت دنیا کی مظلوم اقوام پر امریکی مظالم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
كان يجب اليوم قبل أن تهدد روسيا وغيرها بالمحاكمة، كان يجب عقد عشرات ومئات آلاف جلسات المحاكمة للأميركيين وللبريطانيين وللجيوش الغربية والأوروبية على جرائمها في الجزائر، في ليبيا، في تونس، في أفريقيا، في كل أصقاع العالم، في الهند، في باكستان۔
” قبل اس کے کہ امریکا روس و دیگر پر عالمی عدالت میں مقدمات چلانے کی بات کرتا اور دھمکیاں دیتا، الجزائر، لیبیا، تیونس، افریقہ اور پاکستان سمیت دنیا بھر میں ڈھائے جانے والے امریکی، برطانوی اور مغربی فوجیوں کے جرائم کے خلاف مقدمات چلنے چاہئے تھے۔”
اپنے خطاب میں حزب اللہ کے سربراہ نے یوکرائن کے حوالے سے ہونے والے اقوام متحدہ کے اجلاس میں لبنان کے موقف پر کڑی تنقید کی اور بطور نمونہ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے شجاعانہ موقف کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا:”
بالتأكيد، مصلحة لبنان كانت الامتناع، مثل كثير من الدول في العالم. رئيس وزراء باكستان منذ يومين وثلاثة عندما ضغطوا عليه ماذا قال لهم ” لسنا عبيداً عنكم”، ممتاز، هذا موقف ممتاز، المطلوب من اللبناني أن يقول للأميركي وللسفارة الأميركية لسنا عبيداً عندكم، هذا المطلوب، الوطنية تقول ذلك، السيادة تقول ذلك، الحرية تقول ذلك، الاستقلال يقول ذلك، وغير هكذا تزييف.
” روس اور یوکرائن کی جنگ کے حوالے سے اقوام متحدہ میں حالیہ قرارداد کے لیے ووٹنگ کے حوالے سے یقیناً لبنان کا مفاد دنیا کے بہت سے دیگر ممالک کی طرح ووٹنگ سے گریز میں تھا۔ دو تین دن پہلے پاکستان کے وزیر اعظم نے جب ان پر دباؤ ڈالا گیا تو انہوں نے مغرب سے کہا: "ہم آپ کے غلام نہیں ہیں۔” یہ بہت اچھا اور ایک بہترین موقف ہے۔ لبنانیوں کو بھی امریکیوں سے (یہی) کہنے کی ضرورت ہے۔ امریکی سفارت خانے کو جاکر کہہ دیں کہ ہم آپ کے غلام نہیں ہیں۔ یہی وقت کا تقاضا ہے، حب الوطنی یہی کہتی ہے، خودمختاری بھی یہی کہتی ہے، آزادی بھی یہی کہتی ہے۔ جو اس کے علاوہ کچھ کہتا ہے وہ جھوٹ ہے۔”
وزیر اعظم پاکستان عمران کا موقف حقیقت میں ایک شجاعانہ اور جرات مندانہ موقف ہے جو نہ صرف ہر حریت پسند پاکستانی بلکہ حریت و مزاحمت پسند عالمی تحریکوں اور امریکی استعمارمخالف رہنماوں کے دل کی آواز ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اس موقف کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے۔ اگر وزیر اعظم عمران خان امریکی غلامی اور تسلط سے نجات کے اپنے اس جرات مندانہ موقف کی طرح امریکی غلامی سے نجات کی جدوجہد میں بھی کا میاب رہتے ہیں تو یہ ایک خود مختار اور مضبوط پاکستان کی تشکیل کی بنیاد بن سکتا ہے۔