سال 2010 کے بعد دنیائے اسلام میں عوامی بیداری کی ایک لہر اٹھی، جس کی موج پر سوار ہو کر امریکہ اور اسکے علاقائی اتحادیوں نے خطے کے امن و استحکام کو تباہ کیا اور اپنی مرضی کے مطابق اسے ڈائریکشن دیکر اسرائیل مخالف قوتوں کو کمزور یا ختم کرنے کا پروگرام بنایا۔ امریکہ نے اس سارے عمل میں مسلم ممالک کے اندر پائی جانے والی مقاومت کو کچلنے اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات بنانے کی فضا سازگار کی۔مسئلہ فلسطین کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی خاطر صدی کی ڈیل کا منصوبہ بنایا گیا۔ جسے فلسطینی مقاومت نے خاک میں ملا دیا۔ البتہ امریکی بلاک بعض ممالک کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات بنانے میں کامیاب ہوا۔ ان میں امارات اور بحرین سرفہرست ہیں۔
بحرین میں 14 فروری 2011 کو عوامی بیداری اور آزادی کی تحریک کا آغاز ہوا جس کے نتیجے میں بحرینی عوام کو ظالم و ستم گر حاکم خاندان آل خلیفہ کے لامتناہی ظلم و ستم سہنے پڑے لیکن یہ تحریک آزادی جسے بحرینی 14 فروری کے انقلاب سے تعبیر کرتے ہیں؛ اس کا جوش و ولولہ پہلے کی طرح جواں ہے۔
بحرینی عوام کی اکثریت نے 14 فروری 2011 کو لؤلوہ اسکوائر کو میدان آزادی میں تبدیل کرتے ہوئے بڑی تعداد میں اپنے حقوق اور آل خلیفہ کے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لئے ملک کی گلی گلی سے نکل کر اس اسکوائر کا رخ کیا۔ اگر بحرینی نوجوانوں کی یہ تحریک کامیاب ہو جاتی اور اسے سخت شکنجوں اور گولیوں سے کچلا نہ جاتا تو یہ مسلمان ملک یعنی بحرین اسرائیل کے چنگل میں پھنس کر ناجائز صہیونی حکومت سے سفارتی تعلقات نہ بناتا۔ اس عوامی انقلابی تحریک کو کچلنے کے لئے بحرینی حکومت کو خلیجی ممالک، امریکہ و مغرب اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی۔ امریکہ کے اتحادی خطے کے حکمرانوں نے اپنے اپنے ممالک سے زر خرید سیکورٹی فورسز کے افراد کو بھرتی کر کے بحرینی عوام کی تحریک کو دبانے اور آل خلیفہ کا اقتدار بچانے کے لئے بحرین بھیجا۔ بحرینی عوام دیندار ، محب وطن اور باشعور و غیرت مند قوم ہیں۔ انکا صبر واستقلال واستقامت بے مثال ہے۔ اور انکے پاس زمانہ شناس فقیہ آیت اللہ شیخ عیسی قاسم جیسی مدبر و شجاع و بابصیرت قیادت ہے۔ اس لئے اس قوم کو کبھی دبایا یا جھکایا نہیں جا سکتا ہے۔
بحرین میں نہ تو کوئی مذھبی اختلافات ہیں اور نہ ہی دینی ومذھبی تعصب بحرینی معاشرے میں پایا جاتا ہے۔ فقط اقتدار پر قابض آل خلیفہ اپنے اقتدار کو بچانے اور طول دینے کے لئے مذھبی کارڈ استعمال کر کے جھوٹا پروپیگنڈہ کر ریے ہیں۔ وہاں کیونکہ ملک کی 80 سے 90 فیصد آبادی شیعہ مذھب کے پیروکاروں کی ہے۔ اور وہاں شیعہ وسنی ملکر پیار ومحبت سے رھتے ہیں۔ وہاں مسئلہ دو فریقین کے درمیان ہے ایک طرف ملک کی عوام کی مطلق اکثریت اور دوسری طرف استعماری قوتوں کے باہر سے لائے ہوئے اور عوام کے ارادے کے خلاف ان پر مسلط کئے گئے آل خلیفہ ہیں۔ بحرینی عوام آل خلیفہ کے خلاف اپنی اخلاقی و دینی و ملی اور قومی ذمہ داری ادا کرنے کے لئے سڑکوں پر نکلے اور انہوں نے اپنے شہری حقوق، آزادی، دولت کی عادلانہ تقسیم، اجتماعی عدالت کے قیام، ملک کی خود مختاری اور آبرو و استقلال کا مطالبہ کیا۔ کیونکہ آل خلیفہ کا طرز حکمرانی ظلم و استبداد اور کرپشن و لوٹ مار پر مبنی ہے اور عوام محرومیوں سے دوچار ہیں۔ بحرینی عوام کا انقلاب پرامن انقلاب تھا انھوں نے عوامی طاقت و حمایت سے تحریک چلائی۔ لیکن آل خلیفہ نے اس انقلاب کو گولیوں اور شکنجوں سے کچلا۔ کم عمر بچوں اور خواتین پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔ لوگوں کی عزت نفس اور غیرت دینی کا احترام نہیں کیا۔ مساجد و دینی مراکز کو تباہ کیا گیا۔ گھر کو اسکے مکینوں پر گرایا گیا، عبادتوں پر پابندی عاید کی گئی۔ ان تمام تر ہتھکنڈوں کے استعمال کرنے کے باوجود یہ تحریک آج بھی زندہ ہے ۔ لیکن حکومت عوام کے جائز مطالبات کو قبول کرنے، انکے ساتھ مذاکرات کرنے کی بجائے ظالمانہ روش پر کاربند ہے۔ جس کے چند ایک نمونے مندرجہ ذیل ہیں۔
معاشی امور میں امتیازی و انتقامی سلوک
صحت کے امور میں معاندانہ رویہ
حکومت نے طے شدہ منصوبے کے تحت شیعہ طبی ماہرین اور ڈاکٹروں اور میڈیکل کمپلیکسسز اور ھاسپٹلز میں کام کرنے والے افسران اور ملازمین کے خلاف پروپیگنڈہ مھم چلائی۔ بعض کو جھوٹے الزامات لگا کر گرفتار کر کے اذیتین دی گئیں۔ اور نوکریوں سے فارغ کر دیا گیا۔ ہسپتالوں کو تادیبی و انتقامی مراکز میں تبدیل کر دیا گیا۔ وہاں شیعہ مریضوں کی جانیں محفوظ نہ رہیں۔
دیگر متعصبانہ اور امتیازی رویوں کے چند نمونے
حکومتی اعلی مناصب سے شیعہ افراد کو نکالا گیا۔ ملکی نیشنل سیکورٹی کونسل کے 14 افراد میں ایک بھی شیعہ فرد نہیں۔ اعلی صلاحیتوں کے باوجود ملک کے اھم اداروں اور کمپنیوں میں انہیں عہدوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ ملک کی تاریخ بھی بدلی جارہی ہے۔ شہروں، سڑکوں، اسکولز ، ہسپتالوں اور دیگر مراکز کے نام شیعہ تاریخی ناموں سے نئے غیر معروف نام رکھے جا رہے ہیں۔
شیعہ شخصیات اور قیادت کے خلاف امتیازی اور انتقامی رویہ
آل خلیفہ حکومت شیعہ شناخت اور تاریخ کو مسخ کرنے کی پالیسی پر کاربند ہے ۔ سیکڑوں علماء کرام کی شہریت منسوخ کر دی گئی ہے اور سینکڑوں ملک بدر ہو چکے ہیں اور سینکڑوں کئی سالوں سے جیلوں میں پابند سلاسل ہیں۔ بحرین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہ جس نے پارلیمانی انتخابات میں دو بار بھاری اکثریت حاصل کی اسکے سربراہ علامہ شیخ علی سلمان تقریبا گزشتہ 8 سال سے پابند سلاسل ہیں۔ اور پارلیمانی نظام بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
مساجد و مزارات کے ساتھ سلوک
اس تمام تر صورتحال کے باوجود بحرینی نوجوانوں اور عوام کے حوصلے بلند ہیں اور وہ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کی ایک مثال یہ ہے کہ بحرینی قیادت اور عوام نے ملک کے اندر اور باہر ہر سال کی طرح چودہ فروری کے انقلاب کی بھرپور طریقہ سے یاد منائی ہے۔ بحرینی عوام نہیں چاہتی ان کی نئی نسلیں اپنے اسلاف کی جدوجہد آزادی اور قربانیوں کو بھول جائیں۔ بحرہنی عوام اپنے جدوجہد کو منظقی انجام تک پہنچانے کے لیے پرعزم بھی ہیں اور پرامید بھی۔