یمن قدیم تاریخ سے بہت اہمیت کا حامل ملک ہے۔ تاریخ عرب کا ہر طالب علم اہل یمن کی حکمت وبصیرت اور شجاعت کی گواہی دیتا ہے۔ جب سے اس ملک میں تیل کے ذاخائر برامد ہوئے اس وقت سے عالمی طاقتوں اور ہمسایہ ممالک کی لالچی نگاہیں اس پر مرکوز ہیں۔ معروف ہے کہ سعودی سلطنت کے بانی ملک عبدالعزيز آل سعود نے پٹرول کے ذخائر سے مالا مال یمن کے بعض سرحدی علاقوں پر قبضہ کے بعد اپنے بچوں کو نصیحت کی تھی کہ اگر تم آرام اور عیاشی سے زندگی گزارنا چاہتے ہو تو کبھی یمن میں امن برقرار نہ ہونے دینا۔ سعودی حکومت یمن میں مداخلت کرنا اپنا حق سمجھتی ہے۔ سعودیہ کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ یمن میں ان کی پٹھو حکومت رہے تاکہ کوئی محبِ وطن اور حریت پسند اگر اقتدار پر آ گیا تو وہ یمن مقبوضہ علاقے سعودیہ سے آزاد کرا لے گا۔ اور ملک کو سعودی غلامی سے نجات دلوا دے گا۔
گذشتہ صدی کے اواخر اور نوے کے عشرے میں جب یمنی حریت پسند لیڈر سید حسین بدرالدین حوثی نے انصار اللہ کی بنیاد رکھی اور سعودی تسلط سے یمن کی آزادی کے نعرے کے ساتھ امت مسلمہ کی امریکہ واسرائیلی تسلط سے نجات کا نعرہ بلند کیا تو سب عالمی اور خطے کی استعماری طاقتوں نے ملکر یمن پر چڑھائی کردی۔ا س حملے میں عالمی استعماری طاقتوں اور سعودیہ اور اس کے اتحادیوں نے فضائی بمباری اور زمینی حملوں کے تنیجے میں سعدہ میں مقیم حوثی قبائل کے علاقوں کو تقریبا مکمل طور پر تباہ کردیا ۔ ستم گر طاقتوں کے اس حملے میں ہزاروں بے گناہ شہریوں اور مجاہدین کے ساتھ ساتھ یمنی قوم میں انتہائی مقبول اور حریت پسند رہبر سید حسین بدر الدین حوثی بھی شہید ہوگئے۔
اگلے مرحلے میں سعودی نواز وزیراعظم عبد ربہ منصور ھادی کہ جس کی حکومت کی مدت بھی پوری ہو چکی تھی اور یمنی عوام جسے مسترد کر چکے تھے اسے یمن پر مسلط کرنے کے لئے آج سے تقریبا 8 سال پہلے انصار اللہ اور یمنی عوام کی سرکوبی کے لئے ایک نئی جنگ یمن پر مسلط کر دی گئی۔ اس دفعہ یہ جنگ صرف جنگ کے محاذ پر نہیں تھی بلکہ نفسیاتی بھی تھی۔ دیگر نفسیاتی حربوں کے ساتھ ساتھ ذرائع ابلاغ کی طاقت کو اپنے حق میں استعمال کرتے ہوئے متجاوز طاقتوں نے تمام مغربی و سعودی نواز میڈیا میں یمن کے حوثی حریت پسندوں کو حوثی باغی لکھنا اور بولنا شروع کر دیا۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں کوشش کی گئی کہ یمن جنگ کا صرف ایک ہی رخ دنیا کے سامنے آئے اور وہ بھی متجاوز طاقتوں کے منشا کے مطابق جبکہ تصویر کا دوسرا اور حقیقی رخ سامنے نہ آئے۔ جب امریکی قیادت میں واشنگٹن سے سعودی عرب نے 8 سال پہلے اس جنگ کے آغاز کا اعلان کیااس وقت امریکہ بہادر اور اس کے اتحادی یمن میں انصار اللہ کے کسی قسم کے وجود کو قبول کرنے کے لئے راضی نہیں تھے۔ لیکن اسٹرٹیجک صبر و استقامت کا اعلی نمونہ پیش کرنے کے بعد دنیا انصار اللہ کے وجود کو نہ صرف قبول کرنے پر مجبور ہے بلکہ متجاوز طاقتیں انصار اللہ سے فیس سیونگ کی طلب کرتی نظر آتی ہیں۔ اب مقاومت وشجاعت کی سنہری تاریخ رقم کرنے کے بعد یمنی عوام اور انصار اللہ کے ہاتھ میں اس خطے کے امن استحکام کا فیصلہ آ چکا ہے۔ اب جنگ بندی کی شرائط وہ طے کرنے کی پوزیشن پر آ چکے ہیں۔ اب امن وسلامتی اور جنگ کا فیصلہ انکی مرضی کے بغیر نہیں ہو سکتا۔ دوسری طرف انصار اللہ جارح طاقتوں خصوصا سعودی عرب و عرب امارات کو جنگ کے نقصانات کا مکمل بل ادا کئے بغیر نہیں چھوڑنا چاہتے۔ اس موقع پر انصار اللہ اور یمنی عوام یمن کے نقصانات کی تلافی، تباہ کاریوں کی تعمیر اور سعودی و امریکی اتحاد کی فوجوں کے ہاتھ ہونے والے تباہ کاریوں کا ازالہ چاہتے ہیں۔
اس وقت انصار اللہ نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ وہ جنگ جو 8 سال یمن کی سرزمین تک محدود رہی اب وہ دوبئی ، ابوظہبی اور ریاض ودیگر سعودی واماراتی علاقوں تک پھیل چکی ہے۔ اگر یمنی شہر اور عوام محفوظ نہیں تو سعودی واماراتی شہر اور عوام بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ اور جدید دور کی یہی وہ منطق ہے جسے دنیا تسلیم کرتی ہے مظلوم جب تک استقامت کے ذریعے دندان شکن جواب نہ دے تب تک اس کی مظلومیت پر کوئی توجہ نہیں کرتا۔
انصار اللہ نے واشگاف الفاظ میں اعلان کر دیا ہے کہ ہمارا اگلا ہدف اسرائیل ہوگا۔ انصار اللہ کی دفاعی پوزیشن انکے میزائل اور ڈرون اب انکے دشمنوں کے لئے ایک ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں کہ کسی وقت بھی کسی بھی دشمن کے اسٹرٹیجک علاقوں کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ سعودی و اماراتی غرور وتکبر کو انصار اللہ نے خاک میں ملا دیا ہے ۔ اور اب اس کے وجود کا ہر کوئی اعتراف کر رہا ہے۔ اور اقوام متحدہ سے لیکر ساری عالمی برادری ان سے مذاکرات کر رہی ہے۔ انصار اللہ کی چند دفاعی کاروائیاں منظر عام پر آجاتی ہیں اور بہت ساری ایسی کاروائیاں ہیں جو جارح طاقتوں کے وجود پر کاری ضرب ہوتی ہیں انہیں عالمی ذرائع ابلاغ پر مسلط طاقت ور لابی منظر پر ہی نہیں آنے دیتی۔
2015 سے جاری جارحیت اور زمینی صورتحال کا مختصر جائزہ
2021 کا سال یمن پر مسلط کردہ جنگ کا فیصلہ کن سال کہا جا سکتا ہے۔ شہر مآرب کے اطراف میں جاری جنگ میں اس سال 12000 مربع کلومیٹر علاقہ یمنی مقاومت نے آزاد کروا لیا ہے۔ پہلے مرحلے میں 13 جولائی کو یمنی مقاومت نے 72 گھنٹے جاری رہنے والی جنگ کے نتیجے میں البیضاء ڈویژن کے الزاہر اور الصعومعہ کے علاقے آزاد کروائے۔ حالانکہ یمنی افواج کے ترجمان یحی سریع کے بقول تکفیری جنگجوؤں کی مدد کے لئے سعودی اتحادی کی طرف سے دسیوں فضائی حملے کئے گئے جس میں دفاعی تنصیبات کی بجائے شہری تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا تاکہ مقاومت پر یمنی عوام کا دباو بڑھایا اور یمنی عوام کو مقاومت سے متنفر کیا جاسکے۔
دوسرے مرحلے میں 31 جولائی کو عوامی رضا کار فورسز اور مقاومت نے البيضاء ڈویژن کے نعمان اور ناطع نامی علاقے آزاد کروائے۔ جنکی مساحت تقریبا 390 کلومیٹر مربع ہے۔ اسکی جنگ میں مقاومت نے ڈرونز کے علاوہ بدر اور سعیر نامی میزائیل استعمال کئے۔ تیسرے مرحلے میں 11 ستمبر کو اسی ڈویژن کے ماہیلہ اور الرحبہ نامی علاقے آزاد کرائے گئے جنکی مساحت 1200 کلومیٹر مربع ہے۔ اس کے بعد 17 ستمبر کو مآرب ڈویژن کے مدغل اور مجزر نامی علاقے یمنی مقاومت نے آزاد کرائے جنکی مساحت 1600 کلومیٹر مربع ہے۔ اسی اثناء میں سعودیہ کے فضائی حملوں کے جواب میں مقاومت کی طرف سے سعودیہ کے اندر بدر ، نکال ، ذوالفقار اور قدس نامی میزائل داغے گئے۔ انہیں ایام میں یمنی مقاومت کی طرف سے فجر الحریہ نامی آپریشن شروع کیا گیا جس کے نتیجے میں البيضاء ڈویژن مکمل آزاد ہو گیا۔ ۲۳ ستمبر کو القاعدہ اور داعش کے 7 عسکری چھاؤنیاں پر یمنی مقاومت نے قبضہ حاصل کر لیا۔ 12اکتوبر مآرب ڈویژن کے کئی ایک علاقے آزاد ہوئے ۔ اور یمنی مقاومت نے فجر الانتصار نامی عسکری آپریشن کے بعد دشمن کے کئی عسکری مراکز خالی کروائے ۔ جن کے نتیجے میں 600 مربع کلومیٹر علاقے آزاد ہوئے ۔ بعد میں عسکری ترجمان کے بقول ربیع النصر نامی آپریشن کا آغاز ہوا جس میں مقاومت نے 3200 کلومیٹر مربع علاقے آزاد کروائے۔ 24اکتوبر کو ڈرونز اور میزائل حملوں سے یمنی مقاومت نے بیحان ، عین، اور عسیلان نامی علاقے آزاد کروائے۔ اور شبوہ ڈویژن کے علاقے لحریب اور العبدیہ اور مآرب ڈویژن کے الجوبہ اور جبل مراد نامی علاقے آزاد کروائے اس طرح تقریبا 1100 کلومیٹر مربع علاقے آزاد ہوئے۔ 23دسمبر کو فجر الصحراء نامی آپریشن کا مقاومت نے آغاز کیا۔ جس کے نتیجے میں سرحدی ڈویژن الجوف کے الیتیمہ نامی کو آزاد کروایا۔ جس کے بعد سعودیہ کے اندر جیزان نامی علاقے میں کاروائیاں شروع ہو گئیں۔ اور 1200 کلومیٹر مربع سعودی علاقے بھی مقاومت کے ھاتھ لگ گئے۔ اس کے بعد سعودی امریکی اتحاد نے صنعاء شہر پر تباہ کن فضائی حملے کئے۔ اسی سال یمنی مقاومت نے سعودیہ کے اندرونی حساس اہداف کو میزائلوں کا نشانہ بنایا۔ اور آرامکو کمپنی کے علاوہ ریاض ودیگر شہروں پر بلاسٹک میزائل داغےاور ڈرونز حملے کئے۔ ان دفاعی حملوں کے ذریعے سعودیہ کو پیغام دیا کہ اگر ہمارے شہروں پر حملے ہونگے تو ہم بھی سعودیہ کے عمق میں اسٹرٹیجک اہداف کو نشانہ بنائیں گے۔ اور یہی پیغام گذشتہ ہفتوں میں امارات کو بھی دیا گیا کہ جن کے اپنے گھر شیسے کے ہوں انہیں دوسروں پر پتھراو نہیں کرنا چاہئے۔ یمنی مذاکراتی وفد کے سربراہ محمد عبد السلام نے واضح اعلان کیا ہے کہ یمن کی سرزمین پر کسی بھی غیر ملکی عسکری وجود کو قبول نہیں کرتے۔ اور اسے غیر ملکی قبضہ سمجھتے ہیں اور اپنے وطن کی مکمل آزادی ہمارا حق ہے۔