لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (الحدید/25)
"بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور عدل کی ترازو اتاری تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں”
امام خمینیؒ کے قیام کا مقصد بھی وہی تھا جو انبیائے کرام کی بعثت کا مقصد تھا۔یعنی معاشرے میں عدل الہی کا قیام ہی انقلاب کااساسی مقصد تھا ۔جیسےانقلاب کے زمانے کے عظیم فیلسوف اور فقیہ شہیدآیت اللہ باقرالصدرکے جملے ہیں کہ”امام خمینی نے انبیاء کے خواب کو جامعہ تعبیر پہنایا ہے۔ان کے بقول انقلاب کی کامیابی سے موسی علیہ السلام فرعون پر غالب آگیاہے،امام خمینیؒ نے اس شاہ کی حکومت کا خاتمہ کردیاہےجو زمانے کا فرعون اور شدا دتھا، امامؒ نے اسے سرنگوں کردیاہے۔” آیت اللہ باقرالصدر نے سادہ الفاظ میں امام خمینیؒ کے انقلاب کی عظمت کوبیان کیاہے تاکہ کسی کوکوئی شک نہ ہو کہ امام خمینیؒ کےانقلاب کامقصدکیاتھا۔اور یہ واضح ہوجائےکہ امام خمینیٖؒ انبیاءکے اسی مشن کی تکمیل کےلئے انقلاب لےکرآئےہیں۔ انقلاب کے بارے میں رہبر معظم فرماتے ہیں کہ امام خمینی نےثابت کردیاہے کہ اسلام آج بھی معاشرےکی قیادت کرسکتاہے اور دنیاکےلئےایک بہترین نظام دےسکتاہے،چونکہ اسلام دشمن طاقتوں نے یہ سمجھاتھاکہ انہوں نے اسلام کو معاشرےسے نکال دیاہے،اب تومسلمان اسلام کو ایک مقدس چیزسمجھ کراسی کاذکرکرتےہیں ان کےعمل ،سیاست اور معاشرتی نظام کےاندر اسلام نامی کوئی چیزنہیں ہے۔لیکن امام خمینیؒ نے اپنی تحریک کے نتیجے میں یہ ثابت کر دیا کہ اسلام آج بھی انسانی معاشرے میں زندہ ہے۔انقلاب کےبعد چار دہائیوں سے زیادہ عرصہ گزرچکاہے، انقلاب پہلےسےزیادہ طاقتور ہواہےاور ہرمیدان کےاندرکامیابیاں سمیٹ کر اسلام کی ترجمانی کر رہاہے۔
انقلاب اسلامی کی خصوصیات
انقلاب اسلامی ان جابر اور استعماری طاقتوں کےایجنڈے کےخلاف تھا جن کو عوام کی کوئی فکرنہیں تھی۔ ان طاقتوں کا تمام تر انحصار مغربی ممالک پرتھا۔ شاہ ایران امریکہ اور برطانیہ جیسی استعماری طاقتوں کو ایران بلا کر ان کے ایجنڈے کا حصہ بن چکا تھا۔ غیر ملکی کارندے ایران میں مسلط ہوچکے تھے بعض رپورٹس کے مطابق ۶۰ ہزار کے نزدیک غیر ملکی کارندے ایران میں موجود تھے جو ایران کے نظام کو چلاتے تھے۔ ملک کےتمام شعبوں کےماہرین غیر ملکی تھے۔پھر امریکی اور برطانوی انٹیلیجنس اداروں کےلوگ بھی ایران میں موجود تھے۔ ساواک کے لوگوں نے ظلم کابازار گرم کررکھاتھا،کوئی بھی شخص آواز بلند نہیں کرسکتاتھا ۔ بےحیائی اور فحاشی رواج پا چکی تھی۔کہا جاتا ثقافتی انحطاط اس حد تک تھا کہ مردوں اور عورتوں کےمشترکہ حمام بن چکے تھے۔ عوام زندگی سے تنگ آچکی تھی،ان کی عزت نفس کوروز کچلاجاتاتھا،بھوک،افلاس اور غربت عام تھی ۔ عوام دوطبقات میں تقسیم ہوچکی تھی جو لوگ اعلی عہدوں پرتھے وہ امیرہوتےجارہے تھے جبکہ عام عوام بنیادی ضروریات زندگی سے بھی محروم تھی۔یہی محرومیاں باعث بنیں کہ انقلاب کامیاب ہوا۔
انقلاب اسلامی کانظام مند ہونا
اسلام کی بنیادی تعلیمات میں اسلامی نظام کی تشکیل کے بنیادی اصول موجود تھے ۔ ایک اجتماعی نظام نصِ قرآن اورآئمہ کی روایات میں موجودتھا، انقلاب اسلامی سے پہلے ہمارے فقہانے اپنی کتابوں کےاندر اسلامی نظام کاتذکرہ کیاتھا۔لیکن جس نظام کو امام خمینی نے پیش کیاہے اس نظام کا پہلےکبھی تجربہ نہیں ہواتھا ،صرف امام خمینی ہی ہیں جنہوں نے نظام ولایت فقیہ کےنام سے اس نظام کاتصورپیش کیا۔طول تاریخ میں اہل علم و نظر جزوی طور پر ولایت کے قائل رہےہیں،لیکن ایک جامع اجتماعی و سیاسی نظام کےلئے جدوجہد کبھی نہیں کی گئی تھی۔امام خمینی نے پہلے اسلام کے آثار کےاندرسے وہ جواہراور بنیادیں اکٹھے کئے جن کےاندر اسلامی نظام کاتذکرہ تھا۔پھراپنی کتاب "اسلامی نظام حکومت "کو حوزے کےاندر پیش کیاتاکہ لوگ اس پربیٹھ کربحث کریں۔بعدمیں اسی کتاب کےلیکچرہوئے، اسی کتاب کو پورے ایران میں پھیلایاگیا ،پھرجاکرایرانی عوام نے اسلامی نظام کوقبول کرکےشاہ کےنظام کومستردکردیا۔
نظام کےلئے قیادت کامیسرہونا
کسی بھی نظام کےنفاذکےلئے لیڈر کا ہوناضروری ہے،بعض اوقات انقلاب آتےہیں لیکن نظام چلانے والوں کا فقدان ہوتاہے۔انقلاب اسلامی ایران کو ایک ایسی قیادت میسر آئی جیسے ہمارے عزیز شہید حضرت باقرصدرؒ کے جملے ہیں کہ” ذوبوا في الخميني كما هو ذاب في الاسلام”؛ مختلف علوم کا ماہر فقیہ تھا،بعض فقیہ صرف فقہ کے اندر ماہرہوتےہیں لیکن وہ سیاسی امور،اجتماعی اموراوراقتصادی امور سے بےخبرہوتےہیں۔امام خمینیؒ ایک جامع فقیہ تھے۔ وہ زمانے کےتقاضوں کوجانتےتھے،دشمن کے ہتھکنڈوں کواچھی طرح سےجانتےتھے ۔انقلاب اسلامی کی کامیابی میں امام خمینیؒ کی قیادت کا بہت ہی بنیادی کردار تھا۔
تربیت یافتہ افراد کامیسرہونا
آئمہ معصومین علیہم السلام نے بھی نظام کےلئے قیام کیا لیکن ان کےلئے ایسےانصار نہیں ملے جواس نظام کی تشکیل اور تثبیت میں مدد گار ثابت ہوتے۔لیکن انقلاب اسلامی ایران کےلئے متعددعلماومفکرین کاایک گلدستہ امامؒ کےشاگردوں کی شکل میں موجود تھا جو تربیت یافتہ اور اکیڈمک تھے،امامؒ جب پیرس میں تھے،عراق میں تھے یا یہاں پربھی تھے تو یہ شاگردان امامؒ کےہرپیغام کو ایران کےہرشہرمیں پہنچایاکرتےتھے۔
عوام میں قربانی کا جذبہ
ایرانی عوام نے امامؒ کی ہربات پرلبیک کہا،امام خمینیؒ نے جہاں بھی بلایا قوم میدان میں حاضر رہی۔ ایک دفعہ جب حکومتی سطح پرحکم ہواکہ اگرگھروں سے باہر نکلیں گے تو بم گرائے جائیں گے؛ عوام شاہ کی حکومت کی اس دھمکی کی پرواکئےبغیر گھروں سے باہرآگئی۔ساواک نے جتنے بھی ظلم ڈھائے ان کو عوام نے برداشت کیا لیکن راستہ ترک نہیں کیا۔اگرایرانی قوم کا امام خمینیؒ پر اعتماد نہ ہوتا،امامؒ پر مکمل ایمان اور یقین نہ ہوتا تو وہ اتنی قربانی نہ دیتے۔ایران کی شہید پرور قوم نے ہرطرح کی قربانیاں دےکر امام خمینیؒ کی قیادت میں انقلاب اسلامی کو کامیاب کیا۔
لاشرقہ و لاغربیہ کانعرا
اس زمانے میں جو بھی انقلاب آتے تھے ان کاجھکاو مغرب یا مشرق کی طرف ہوتاتھا۔ دنیا اُس وقت دو حصوں میں تقسیم تھی۔امام خمینیؒ نے فقط خدائےلم یزل جل جلالہ پرتوکل کرتےہوئےانقلاب کی قیادت کی۔ انھوں نے نہ امریکہ پر اعتماد کیانہ روس پراعتمادکیا۔امام خمینیؒ نے جو بھی شرعی اورقانونی حیثیت حاصل کی عوامی طاقت سےحاصل کی۔امام خمینیؒ کو اپنی عوام کی طاقت پر اعتمادتھا۔ عوام بھی امام خمینیؒ کی توقعات پر پوری اتری۔جب امام خمینیؒ ایران واپس آئے تو کروڑوں کی تعداد میں لوگ تہران میں امام خمینیؒ کے استقبال کے لیے جمع ہوئے اور یہ وہی وقت تھا جب شاہ ایران سے بھاگ چکا اور انقلاب اسلامی کی کامیابی کی صبح طلوع ہوچکی تھی۔
صالحین کی دعاوں کااثر
بہت سے عرفا،علما اورصالحین ایسے تھے کہ جو امام خمینیؒ کی مدد کےلئےعملی میدان میں تونہیں آسکے لیکن امام خمینیؒ کی کامیابی کےلئےمصلیٰ عبادت پر بیٹھ کردعاکرتےتھے اور خود امام خمینیؒ کے ساتھ جولوگ میدان عمل میں تھے ان کابھی خدا کےساتھ خاص تعلق تھا۔ انقلاب اسلامی کی کامیابی کی اور بنیادی وجہ انقلاب کی تحریک میں شریک لوگوں کا خلوص اور تقوی تھا۔
انقلاب اسلامی کی کامیابیاں
ایران میں انقلاب اسلامی کامیاب ہوا تو ساتھ ہی ایران پر پابندیاں عائد کی دی گئیں۔ لیکن شدید ترین پابندیوں کے باوجود ایران نے اپنے سفارتی تعلقات کےاندرفرق آنے نہیں دیا۔ دشمن چاہ رہاتھاکہ ایران مکمل طور پر تنہاہوجائے۔ ۸ سال صدام کےذریعے ایران پرجنگ مسلط کی گئی۔پھر ایران کے جتنے بھی صنعتی تعلقات تھے ان تعلقات پر پاپندیا ں عائدکردی گئی۔ اس کے باوجود آج ایران نے اس قدر کامیابیاں حاصل کی ہیں۔آج ایران نے اپنی اچھی ڈپلومیٹک پالیسی سے دنیامیں ایک باوقار مقام حاصل کیاہے۔ایران دنیا کے اکثر ممالک کے ساتھ بہترین سفارتی اور تجارتی تعلقات کا حامل ہے۔
امن عامہ کے حوالے سے بھی ایران دنیاکاپرامن ترین ملکوں میں سے ایک ہے، دفاعی اعتبارسے بھی ایران خودکفیل ہے۔ ایران اپنا تمام تر دفاعی ساز و سامان خود بناتا ہے بلکہ ایرانی عسکری اداروں کے سربراہوں کے بقول اگر ایران پر پابندیاں نہ ہوتیں تو ایرانی دفاعی سازوسامان برآمد کرنے والا خطے کا سب سے بڑا ملک ہوتا۔ ایران نے داخلی طور پر بھی تخریبی نیٹ ورکس پر قابو پایا اور ان کے منصوبوں کو ناکام بنایا ہے۔معاشی اور تعمیر و ترقی کے اعتبار سے بھی ایران ایک خود کفیل ملک کے طور پر ابھرا ہے۔ انقلاب اسلامی کے بعد ایران اپنی ملکی ضروریا تکی اکثر چیزیں ملک کے اندر خود تیار کرتا ہے۔ ایران نےجہاں شہرتعمیرکئےہیں وہاں پر زندگی کےتمام تروسائل فراہم کئے ہیں ۔ نئے ڈیم بنائےہیں، زراعت کےاعتبارسے بھی ایران بہت ترقی کرچکا ہے اس وقت ایران گندم اورخوراک کےلحاظ سےبھی خودکفیل ہے ایک وقت ہوتاتھاکہ ایران میں تمام گندم باہرسےآتی تھی ۔ توانائی کےاعتبارسے بھی ایران نہ صرف خودکفیل ہے بلکہ بجلی اور گیس دیگرممالک کو بھی مہیاکرتاہے۔ ایران نے صنعتی اور تعمیراتی میدان میں بہت سی کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ ثقافت اور کھیل کے میدان میں بھی ایران نے ایک انقلاب برپاکیاہے۔
عوم کی رفاہ اورسطح زندگی کےحوالےسے ایران انقلاب سے پہلے دنیا میں ۱۳۸ ویں نمبر پر تھا لیکن انقلاب کے بعدہونے والی پیشرفت کے بعد اب ایران عوام کے معیار زندگی کے اعتبار سے دنیا میں ۷۰ ویں نمبر پر ہے۔ ۱۹۷۲ میں یعنی انقلاب کےآنے سے چندسال پہلے ایران میں ایک عام انسان کی اوسط عمر ۵۴ سال تھی، انقلاب کے دس بارہ سال بعد معیار زندگی بلند ہونے کیوجہ سے یہی اوسط عمر ۶۳.۸ سال ہوگئی اور ۲۰۱۰ میں یہ اوسط عمر ۷۰ سال تھی۔
جب انسان کی زندگی کا معیار گرتا ہے، ضروریات زندگی میسر نہیں ہوتیں، مناسب ماحول نہیں ملتا تو انسان کی عمرکم ہوجاتی ہے۔جب انسان کومناسب خوراک اور ماحول مل جاتےہیں تو عمر بھی بڑھ جاتی ہے۔ ایران کی قومی آمدن میں بھی انقلاب اسلامی کے بعد خاطر خواہ اٖضافہ ہواہے۔ انقلاب سے پہلے ایران کی آبادی صرف ۳ کروڑ اور ۶۰ لاکھ تھی ۔چند سال قبل کے اعداد و شمار کے مطابق ایران کی آباد ۸ کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس کے باجود ۱۹۸۰ میں قومی سرمائے میں ایک شہری کا حصہ ۱۱ ہزار ۴۰۰ ڈالر کے قریب بنتا تھا جو ۲۰۰۰ میں ۱۳۱۲۶ ڈالر فی فرد، ۲۰۱۱ میں ۱۷۹۳۶ ڈالڑ فی فرد اور ۲۰۱۷ میں ۱۹۱۶۵ ڈالرع فی فرد ہوگیا ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ انقلاب اسلامی کے بعد لوگوں کے معیار زندگی میں قابل چشم دید بہتری آئی ہے۔
انقلاب اسلامی ایک نورانی انقلاب تھا جس نے جہاں دین مبین اسلام کی حقیقی تعلیمات کو اجتماعی زندگی میں پیادہ کیا وہیں دنیا کی محکوم اور مستضعف اقوام کو ظالم و ستم گر طاقتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہونے کا درس بھی دیا۔ انقلاب اسلامی نے ایک طرف اپنے عوام کا معیار زندگی بلند کیا تو دوسری طرف حقیقی اسلامی ثقافت کا احیا بھی ممکن بنایا۔ انقلاب اسلامی کو جس زاویہ اور جس فکر کے ساتھ دیکھیں یہ انقلاب ایک رول ماڈل کے طور پر سامنے آتا ہے۔ انقلاب اسلامی عصر ظہور کے نزدیک ہونے کا پتہ دیتا ہے۔ انقلاب اسلامی انبیائے کرام اور آئمہ معصومین کے خواب کی ایک تعبیر ہے۔ اور بقول شہید قدس اور مدافع مقدسات اسلام شہید قاسم سلیمانیؒ انقلاب اسلامی حرم ہے۔ اقوام عالم خصوصا اسلام کی عزت و ناموس کا حرم جس کا پرچم اس وقت نائب برحق امام عصر عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف حضرت آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای حفظہ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور بہت جلد ان شا اللہ وہ یہ پرچم اپنے ولی و امام حضرت حجت ارواحنا لہ الفدا کے حوالے کریں گے۔