لبنان اس وقت شدید سیاسی، معاشی اور امن عامہ کے بحران کی زد میں ہے۔ دوسری طرف اسرائیلی تھنک ٹینکس خطے میں ایک بڑی جنگ کے امکانات اور اسکے ممکنہ اتحادی دھڑوں پر بات کر رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ اس جنگ کا دائرہ اب فلسطین ولبنان تک محدود نہیں ہو گا بلکہ امکان ہے کہ بشمول یمن ، خلیجی ممالک ، ایران ، عراق و شام یعنی پورا مشرق وسطی میدان جنگ ہو گا۔
سياسی بحران :
امریکی وسعودی مداخلت کی وجہ سے لبنان 2018 کے انتخابات سے لیکر اب تک سیاسی طور پر بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ۔ جب انکے اتحادیوں کو انتخابات میں شکست ہوئی اور لبنانی عوام نے مقاومت کی حمایت کرنے والے امیدواروں کو ووٹ دیکر کامیاب کیا اور پارلیمنٹ میں امریکی و سعودی ہم خیال گروہوں کی اکثریت نہ رہی تو اس وقت سے انکی کوشش ہے کہ ملک کا سیاسی نظام معطل رہے۔ وزیراعظم کے انتخاب پر لمبا عرصہ تعطل دیکھنے میں آیا جب آخر کار حسان دیاب نے حکومت تشکیل دی تو بیروت بندرگاہ پر ایک ہولناک دھماکا ہو گیا اور پھر سیاسی دباو کی بنا پر دیاب کی حکومت بھی مستعفی ہو گئی ۔ اس کے بعد سعد الحريري کو حکومت بنانے کا کہا گیا تو نو ماہ معطل رکھنے کے بعد وہ بھی پر وہ دستبردار ہوگیا۔ اس کے بعد لبنانی صدر نے سابق وزیراعظم نجیب میقاتی کو حکومت بنانے کا کہا؛ انھوں نے کئی ماہ کے بعد ایک حکومت تو بنائی لیکن بین الاقوامی برادری کے پریشر اور اندرونی سیاسی خلفشار کی وجہ سے عملی طور پر یہ بھی جمود کا شکار ہے ۔ اب اس حکومت کا دورانیہ بھی ختم ہونے والا ہے اورسیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اتفاق رائے کے نتیجے میں امسال مئی کے وسط میں پارلیمنٹ کےنئے انتخابات ہونگے۔
معاشی بحران:
لبنان امریکی اقتصادی پابندیوں اور سعودی ومغربی عدم تعاون کی وجہ سے شدید اقتصادی ومعاشی بحران سے گزر رہا ہے ۔ غیر ملکی عناصر کی ایما پر سرمایہ ملک سے باہر منتقل کیا جارہا ہے۔ تقریبا تین دہائیاں قبل طائف معاہدہ کے بعد جو نظام اس ملک پر مسلط ہوا اس کے مہروں نے کرپشن کی انتہاء کی اور ملک کا سرمایہ لوٹا اور اقتصادی طور پر اسے کمزور اور بیرونی امداد پر انحصار کرنے والے ملک میں تبدیل کر دیا ہے۔ یہ حقیقت سب پر اس وقت عیاں ہوئی جب 2019 میں نا کام انتظامیہ، مالی بدعنوانی ، اور قومی سرمائے کے بڑے پیمانے پر زیاں کے باعث اسٹیٹ بنک کے سربراہ ریاض سلامہ نے نوٹیفکیشن جاری کردیا کہ اب ہم بنیادی ضروریات زندگی، طبی سہولیات، غذایی ضروریات، پٹرول وغیرہ پر سبسیڈیز دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ اس اعلان کے بعد یکسر ہر چیز کی قیمتیں کئی گنا بڑھنا شروع ہو گئیں۔ ریاض سلامہ نے مزید کہا کہ لبنانی بینکوں میں غیر ملکی کرنسی کے ذخائر ختم ہو چکے ہیں ، حتی اب بینک اپنے ملازمین کو تنخواہیں دینے سے بھی قاصر ہیں۔ اس صورت حال میں عوام کا تقریبا75 % سرمایہ لٹ گیا اور لبنانی کرنسی اچانک بہت زیادہ گر گئی کہ ایک ڈالر ۱۵۰۰ لبنانی لیرہ سے بڑھ کر ۲۸۰۰۰ لبنانی لیرہ تک ہوگیا۔ دوسری طرف ذخیرہ اندوزی شروع ہو گئی اور مارکیٹ میں اشیائے ضروریات کی شدید کمی ہو گئی اور اگر ملتی بھی تو انکی قیمتیں عوام کی قوت خرید سے بہت اوپر جا چکی تھیں ۔ پٹرول پمپوں، روٹی کے پلانٹس اور دیگر ہر جگہ مواد کی کمی کے باعث لائنیں لگ گئیں۔ اب زندگی گزارنے کے لئے ایک آدمی کی تنخواہ یا آمدن جو درکار تھی وہ میسر نہ تھی۔ 80% سے زیادہ عوام غربت کی لائن کے نیچے چلے گئے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ اور توانائی کے بحران نے روشنیوں کے شہر اور ملک کو اندھیروں میں تبدیل کر دیا۔ ہماری نزدیک یہ اس ملک کو مقاومت کے نتیجے میں ملنے والی سزا تھی جو امریکہ نے اپنے علاقائی حلیفوں کے ساتھ ملکر اس ملک کو دی۔ 2018 کے انتخابات میں عوامی فیصلے کا انتقام لبنان میں شدید اقتصادی بحران پیدا کرکے لیا گیا ۔ اس بحران سے نمٹنے کے لئے اگر کوئی حکومت ہوتی تو کچھ اقدامات کرتی ۔ اس صورتحال میں حزب اللہ نے ایران کے تعاون سے ضروریات زندگی کو کم قیمت میں فراھم کرنے اور پٹرول وڈیزل کے بحران سے نمٹنے کے لئے بلا تفریق سب لبنانی عوام کے ساتھ تعاون کیا۔
اس صورتحال میں اب غیر ملکی وفود لبنان آرہے ہیں ۔ جن میں فرانس کے صدر اور امریکی کانگرس کا وفد اپنے ایجنڈے کے ساتھ آئے۔ اور سیاسی واقتصادی صورتحال پر حکومتی ذمہ داران اور پارٹیز سربراہان سے مذاکرات ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ذریعے انکی شروط پر مالی تعاون کی بات چیت ہوئی ہے ۔ نیز اسرائیل کے ساتھ بحری سرحدوں کے تعین پر بھی گفتگو ہوئی ہے۔ ان دنوں لبنان آنے والے بین الاقوامی وفود لبنان کے سیاسی واقتصادی مستقبل، آئندہ کے انتخابات اور امریکی شرائط کو قبول کرنے کے لئے دباو ڈال رہے ہیں۔
گذشتہ سال 2021 میں امریکا نے لبنان کے دارالحکومت بیروت شہر میں 174 ہزار میٹر مربع پر سفارتخانے کی تعمیر کا بھی افتتاح کیا ہےجو کہ مشرق وسطی میں جاسوسی ، سکیورٹی وعسکری کنٹرول کے لئے سب سے بڑی امریکی چھاونی بنے گا۔
سکیورٹی بحران:
2006 کی شکست کے بعد اسرائیل اور امریکی بلاک کا سب سے بڑا ہدف حزب اللہ جو کہ اس ملک کی فقط عسکری نہیں بلکہ سیاسی واجتماعی لحاظ سے عوامی حمایت کے اعتبار سے ایک بڑی طاقت ہے۔ اور ملک کے سب طبقات اور ادیان ومذاھب سے انکے بہت اچھے تعلقات ہیں انکے سیاسی جماعتوں کے ساتھ ہم آہنگی ہے اور ملک سب سے بڑی مسیحی پارٹی کہ جس کی پارلیمنٹ کے اندر واضح اکثریت ہے اور جس کا سربراہ میشل عون اس وقت ملک کا صدر ہے وہ حزب اللہ کا قابل اعتماد اتحادی ہے اسی طرح انکے اہلسنت اور دروزی سیاسی جماعتوں سے بھی بہت اچھے تعلقات ہیں اور وہ انکے قابل اعتماد اتحادی ہیں۔
جبکہ مسیحی برادری کی قوات لبنانیہ کے سربراہ سمیر جعجع ، مستقبل پارٹی کے سربراہ سعد الحريري اور درزی حزب التقدمی الاشتراکی کے سربراہ ولید جنبلاط رفیق حزب اللہ کے روائتی سیاسی مخالف گروہ ہیں۔ یہ تینوں دھڑے لبنان میں امریکی و سعودی بلاک کے نزدیک سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تینوں گروہ مقاومت کے خلاف بیان بازی اور رائے عامہ کو مقاومت کے خلاف کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں نیز مقاومت کو شکست کا خواب ہر وقت ان کے ذہنوں میں رہتا ہے۔
اسرائیل اور امریکی بلاک لبنان کو خانہ جنگی میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ ان کی کوشش ہے کہ ایسے حالات بنائے جائیں کہ مقاومت مجبور ہو کر اپنا اسلحہ داخلی جنگ میں استعمال کرے تاکہ پھر اسے نہتا کرنے کا راستہ ہموار ہو سکے۔ اسرائیل؛ مقاومت کی فوجی طاقت سے ہر وقت خوفزدہ ہے۔ اسی طرح امریکہ و سعودیہ بھی شام وعراق وفلسطین ویمن میں اپنی شکست کا سبب حزب اللہ اور لبنانی مقاومت کو سمجھتے ہیں۔
سعودیہ نے 2006 کی جنگ میں بھی اسرائیل کی مالی امداد کی تاکہ لبنانی مقاومت کا خاتمہ ہوسکے۔ سعودی وزیر خارجہ کے بقول انہوں نے اپنے اتحادیوں کو لبنان میں اربوں ڈالرز دئیے تاکہ وہ حزب اللہ اور اسکے اتحادیوں سے نمٹ سکیں لیکن انھوں نے ہمیں مایوس کیا اور حزب اللہ کے خلاف ناکامی پر سعد الحريري سے سعودیہ کا اعتبار اٹھ گیا۔ جب 2017 میں سعد الحریری وزیراعظم تھا اور دورے پر سعودیہ آیا تو اسے ائرپورٹ پر ہی بن سلیمان نے گرفتار کر لیا اور اسے مستعفی ہونے کا بیان بھی تھما دیا۔ اب تو سعد الحريري نے کچھ دن پہلے عارضی طور پر سیاست سے دستبردار ہونے کا بھی اعلان کر دیا ہے کہ وہ مئی 2022 کے الیکشن میں حصہ نہیں لے گا۔ کہا جا رہا ہے کہ یہ بھی اماراتی اور سعودی پریشر کی وجہ سے اس نے اعلان کیا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لبنان میں امریکی سعودی ایجنڈے کو تکمیل کون کرے گا اور حزب اللہ اور اسکے اتحادیوں سے کون لڑے گا؟ ۔
قرائن بتاتے ہیں کہ انھوں نے اس شخص کا انتخاب کر لیا ہے کہ جس کی تاریخ جرائم سے بھری پڑی ہے ۔ اور داخلی فتنے اور اسرائیلی ایجنڈے کی تکمیل وہی شخص کر سکتا ہے جو اسرائیل کا پرانا اتحادی اور قابل اعتماد ہے۔ اور وہ شخص سمیر جعجع ہے۔ اگرچہ وہ مسیحی ہے لیکن شیعہ سنی فتنہ ہو یا مسیحی مسلم فتنہ یہ شخص ہر قسم کے فتنوں کو لیڈ کرنے کا تجربہ رکھتا ہے۔
سمیر جعجع کے جرائم کی تاریخ:
وقد أُدين جعجع بجرائم عدّة؛ من بينها ارتكاب مجزرة اهدن عام ثمانية وسبعين التي أسفرت عن مقتل طوني فرنجية ـ والد رئيس تيّار المردة سليمان فرنجية مع أفراد أسرته كما قام بخطف الدّبلوماسيّين الإيرانيين الأربعة على حاجز البربارة العسكري التّابع للقوّات عام اثنين وثمانين. مسلسل الاغتيالات الحافل في سجل جعجع الاجرامي تجسد بعملية إغتيال رئيس الحكومة الأسبق رشيد كرامي عام سبعة وثمانين بتفجير الطّائرة العسكريّة الّتي كانت تُقلّه اضافة الى اغتيال داني شمعون إبن الرئيس كميل شمعون مع زوجته وأطفاله؛ حكم على اثرها بالإعدام۔ (العالم)
ترجمہ:
سمیر جعجع ایک مجرم شخص ہے جس کو لبنانی عدلیہ کی طرف سے کئی ایک بار سزا سنائی جاچکی ہے۔ ۱۹۷۸ میں عہدن میں قتل عام کے واقعہ کے خلاف کمیشن بناجس واقعہ کے نتیجے میں ٹونی فرنجیہ مارا گیا تھا تو اس کمیشن نے بھی سمیر جعجع کو مجرم قرار دیا تھا-اس نے 1982 میں حزب القوات اللبنانیہ کی البربارا فوجی چوکی سے چار ایرانی سفارت کاروں کو بھی اغوا کیا تھا۔ سمیر جعجع کے مجرمانہ ریکارڈ میں 1987 میں سابق وزیر اعظم رشید کرامی کا قتل بھی شامل ہے جس میں ان کے طیارے کو دھماکے سے اڑایا گیا تھا ۔ اس کے علاوہ صدر کمیل شمعون کے بیٹے دانی سمعون کو بھی انکی بیوی اور بچوں کے ساتھ قتل کیا گیا جس کے نتیجے میں سمیر جعجع کو موت کی سزا سنائی گئی تھی۔
جب 1982 میں اسرائیلی فوجیں لبنان پر قابض ہوئیں تو سمیر جعجع کی پارٹی حزب القوات اللبنانیہ نے انکا مکمل ساتھ دیا۔ کئی ایک سنی اور مسیحی بڑی اہم سیاسی شخصیات کے قتل میں ملوث ہونے کی وجہ سے لبنانی حکومت نے 1994 میں سمیر جعجع کو گرفتار کر لیا تھا۔
سابق لبنانی وزیراعظم رفیق الحریری کے قتل کے بعد سعودی انٹیلی جنس نے اپنے مستقبل کے ایجنڈے کو مد نظر رکھتے ہوئے سمیر جعجع کو لبنانی جیل سے آزاد کروا دیا تھا ۔ رہائی کے فورا بعد ہی سمیر جعجع کا خطاب حزب اللہ کے اسلحہ کے خلاف تھا۔ جس اسلحہ کی بدولت لبنان اسرائیل سے آزاد ہوا تھا۔ سمیر جعجع اور اسکی پارٹی کا موقف اور افکار و جرائم کی بعض مثالیں ذیل میں بیان کرتے ہیں۔
- ۲۰۰۸میں اسکی پارٹی کے مسلحہ افراد نے چھپ کر حزب اللہ اور تحریک امل کے عوامی مظاہرے پر فائرنگ کی جب وہ الشیاح کے علاقے مار مئخائیل کنیسہ کے قریب سے گزر رہے تھے ۔ اس سانحہ میں 8 افراد جان بحق اور 30 افراد زخمی ہوئے۔ اس حملے کا ہدف لبنان کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنا تھا لیکن حزب اللہ اور تحریک امل نے صبر کا مظاھرہ کیا۔
- ویکیلیکس کے مطابق 9 مئی 2008 کو سمیر جعجع لبنان میں قائم امریکی سفارت خانے گیا اور قائم مقام سفیر سے ملاقات کی اور کہا کہ میرے پاس 7000 سے 10000 تربیت یافتہ مسلح جنگجو ہیں اگر آپ اسلحہ ودیگر مدد کرتے ہیں تو تو ہم حزب اللہ سے لڑنے کے لئے تیار ہیں۔
- ۱۷اکتوبر ۲۰۱۹ کو جب اقتصادی وسیاسی صورتحال اور مہنگائی کے خلاف عوامی مظاہرے ہوئے تو جعجع نے انہیں برسرعام حزب اللہ اور مقاومت کے اسلحہ کے خلاف استعمال کرنے کی پوری کوشش کی اور داخلی جنگ و فتنے کا ماحول بنایا ۔ 18 اکتوبر 2019 کو سمیر جعجع نے اپنی پارٹی القوات اللبنانیہ کو باقاعدہ طور پر مظاہرین کے ساتھ شامل ہونے کی تاکید کی ۔ اور مقاومت کے خلاف عوام کو ابھارنے کی کوشش کی۔
- خبر رساں ادارے خنادق کے 15 اکتوبر 2020 کے شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق 13 اکتوبر 2020 کو سمیر جعجع نے حزب التقدمی الاشتراكي کے سربراہ ولید جنبلاط سے کہا کہ میرے پاس حزب اللہ سے لڑنے کے لئے 15000 جنگجو ہیں جس کے جواب میں حزب اللہ کے سربراہ نے اپنے خطاب میں سمیر جعجع کو فتنے سے باز ہنے کا کہتے ہوا کہا کہ مقاومت کے پاس ایک لاکھ سے ہر وقت تیار مجاہد ہیں لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہم اپنی طاقت داخلی جنگ میں صرف کریں ہم اپنی طاقت صرف اصلی دشمن اسرائیل کے خلاف استعما کرنا چاہتے ہیں لہذا ہمیں مجبور نہ کیا جائے۔
- سمیر جعجع کے حکم پر 14 اکتوبر 2021 حزب القوات اللبنانیہ کے جنگجوؤں نے کمین سے چھپ کر حزب اللہ اور تحریک امل کے عوامی مظاہرے پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں 7 افراد جان بحق اور دسیوں زخمی ہوئے اور اسکی پارٹی کے افراد رنگے ھاتھوں پکڑے گئے۔
- اب حزب القوات اللبنانیہ حزب اللہ کے خلاف بہت آگے بڑھ چکی ہے۔ 29 جنوری 2022 الجديد چینل پر حزب اللہ کے خلاف گفتگو کرتے ہوئے حزب القوات کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات اور میڈیا انچارج شارل جبور نے کہا: "جیسے ہم نے شام کو 2005 میں لبنان سے نکالا تھا ایسے ایران کو نکالیں گے۔ اور اس کا آغاز آنے والے پارلیمانی انتخابات سے حزب اللہ کے مقابلے سے کریں گے”.
بات سیاسی اختلاف یا انتخابی مقابلے تک رہتی تو سیاسی موقف تھا جو جمہوری معاشروں میں سب کا حق ہے کہ وہ کس کی مخالفت کرتے اور کس کی حمایت کرتے ہیں لیکن اس نےآگے بڑھ کر حزب اللہ کے اسرائیل کے خلاف لڑنے کے اسلامی عقیدے پر ہرزہ سرائی کی اور کہا : ”اگلے مرحلے کا عنوان ’’حزب اللہ کا مقابلہ‘‘ ہونا چاہیے اور کسی بھی قتل یا نقص امن کے واقعے کی ذمہ داری اس پارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ اس کے بقول حزب اللہ ہزاروں سال پہلے والا ” جلیطة يعني خونی یا دموی ” عقیدہ رکھتی ہےاور اس بناء پر (اسرائیل سے ) جنگ کرنا چاہتی ہے۔ اور ہم امن سے رہنا چاہتے ہیں۔ جبکہ قارئین بہتر جانتے ہیں کہ ظالمین و مستکبرین کے ساتھ جنگ کسی خاص گروہ کا نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ قرآنی نظریہ ہے اور سنت موکدہ ہے کہ مستضعفین کو ظالمین و مستکبرین سے نجات دلائی جائے اور اس روئے زمین پر شاید ہی ایسا کوئی زندہ ضمیر شخص ہو جس کوغاصب اسرائیل کے ظالم ہونے پر شک ہو!
حزب القوات اللبنانیہ کی سوچ و فکر، ناپاک عزائم اور انکے خونی جرائم ، سیاہ کارناموں کی تاریخ اور امریکی و اسرائیلی وفاداری کو دیکھتے ہوئے سعد الحريري کی جکہ سمیر جعجع کو لیڈنگ رول دے دیا گیا ہے۔
لبنان کا بحران سیاسی ہو یا معاشی یا نقص امن کا بحران ہو۔ اس سب کے پیچھے ایک ہی ہدف و مقصد ہے کہ کسی طرح مقاومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے اور عوام کو مقاومت سے متنفر کرکے مقاومت کے مقابلے میں کھڑا کر دیا جائے۔ مقاومت کے خلاف محاذ کی قیادت اب سعد الحریری سے لیکر سمیر جعجع کو دی جارہی ہے، لیکن مقاومت کی قیادت کی بصیرت، تابناک ماضی، استقامت اور شجاعت اس یقین کے لیے کافی ہے کہ شکست اور رسوائی ظالموں اور ان کے مہروں کامقدر ٹھہرے گی۔