مشہد مقدس میں شہید قاسم سلیمانی ؒ کی دوسری برسی کی مناسبت سے منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شریازی ن کہا : مکتب کہ جسے انگلش میں(school of thought) کہتے ہیں، مکتب یعنی ایک نقطہ فکر پر جمع ہونا، یعنی فکر کا فلسفی ہونا،اجتماعی ہونا،سیاسی ہونا، تکنیکی امور ہوں یا ثقافتی ہوں، ایسی تحریک ،ایسی نہضت ،ایسا انقلاب جس پر سب اکھٹے ہوجائیں، اسے مکتب کہتے ہیں۔ انہوں نے مزید فرمایا:شہید قاسم سلیمانی کی بیٹی نے بھی کئی مرتبہ مکتب شہید سلیمانی کی طرف اشارہ کیاہے۔وہ کہتی ہیں کہ مکتب قدیم ہوتا یاجدید ہوتا ہے۔ جب جہاد کا تذکرہ ہوتا ہے تو یقینا ذہن جنگ و جدال کی طرف جاتے ہیں۔ قدیم زمانے میں دیکھا جائے تو جہاد تیر، تلوار اور نیزوں سے ہوتا تھا اور آج کے جدید دور میں ٹینک اور جدید قسم کا اسلحہ ہے۔ علما اس جہاد کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ جہاد اکبر یا جہاد اصغر۔ جھاد اصغر وہی تیر و تلوار والی جنگ و جدال اور جہاد اکبر یعنی اپنی نفس کو پاک و پاکیزہ رکھنا۔ شہید قاسم سلیمانی نے اپنے نفس کو پاکیزہ رکھا اور جام شہادت نوش کیا۔ قرآنی آیات کی روشنی میں انکا کہنا تھا صبر کی دو قسمیں ہے: صبر کی پہلی قسم یہ ہے کہ اپنی ذات پر جو مصیبتیں اور مشکلات آئیں، ان پر صبر کرنا دوسری قسم من حیث القوم،ملت،ملک،مکتب اور وطن پر آنے والی مشکلات پر صبر کرناہے۔
حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے خطا کرتے ہوئے فرمایا: جس مکتب کا شہید قاسم سلیمانی نے ہمیں درس دیا ہے، وہ مکتب، مکتب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ سلم ہے، وہ مکتب مکتب امام حسین علیہ السلام اور مکتب امام زمان علیہ السلام ہے،یہ مکتب، مکتب مزاحمت ہے، مکتب مقاومت ہے۔ امریکہ اور اس کے حواری چاہتے ہیں کہ اقوام اور ملکوں کو مذہبی،علاقائی اور لسانی بنیاد پہ چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیں، جس میں سوریہ،عراق،ایران،افغانستان شامل ہے، وہ اپنے مرضی کے حکمران مسلط کرنا چاہتےہیں۔ اس نقشے کو ناکام کرنے کے لئے بہت خون دیا گیا، اس کے لئے بہت سی قربانیاں دی گئیں۔ ان کے عزائم کو خاک میں ملانے والے کا نام مکتب شہید قاسم سلیمانی ہے۔
انکا مزید کہنا تھا کہ آل سعود وہی پہلے والے آل سعود ہیں، جنہوں نے مقدس مقامات کو منہدم کیا۔آج کے زمانے میں کوشش کے باوجود وہ ایسا کیوں نہیں کرپائے ہیں؟ یقینا یہ مکتب شہید قاسم سلیمانی کی کی برکت سے ہے۔
انہوں نے بتایا شام میں خانہ جنگی کی ابتدا میں حرم جناب سیدہ زینب کبری سلام اللہ علیہا کی ضریح مبارک کی دیواروں پر باقاعدہ لکھا گیا تھا کہ بشار حکومت کے ساتھ ساتھ یہ ضریح بھی منہدم ہوگی۔ اگر آج تمام مقدسات سالم ہیں تو یقینا مکتب شہید سلیمانی کی بدولت صحیح و سالم ہیں۔
داعش کربلا معلی تک پہنچنے والے تھے، انکو شہید قاسم سلیمانی نے روکا، انہوں نے اپنا خون دیکر مکتب رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حفاظت کی، ان کی بیٹی کہتی ہیں کہ شہید قاسم سلیمانی ؒ کا نقصان ہم سب کا نقصان ہے، یقینا آج ایک ایرانی جرنیل کا خون نہیں گرا ہے، بلکہ محسن انسانیت کا خون گرا ہے۔
شہید کی شہادت سے انکا مکتب ختم نہیں ہوا ہے، انکے سپاہی اس مکتب کو آگے بڑھائیں گے۔ رہبر معظم فرماتے ہے: ہم شہید عزیز کو ایک مکتب،ایک راستے اور ایک تربیت گاہ کے عنوان سے دیکھیں۔ شہید قاسم سلیمانیؒ کی خصوصیات میں سے دو نکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا: شہید کی قرآن و اہلبیت علیہم السلام سے خاص انسیت تھی، انہیں مظلوموں کی قدرت پر یقین تھا جب انہوں نے اپنی حکمت عملی اختیار کی تو دنیا کے کونے کونے سےلبیک یا حسینؑ اور کلنا عباسک یا زینب (س) کی صدائیں بلند ہوئیں، وہ جانتے تھے کہ جیت ہمیشہ حق کی ہوتی ہے اور ہمارا مکتب حق پر ہے اور جو حق پہ ہو، یقینا پرودگار اسے فتح نصیب فرماتا ہے۔شہید قاسم سلیمانیؒ کو مبداء اور مقصد پر یقین تھا، ہمیں بھی چاہیے کہ مبداء اور مقصد پر یقین رکھیں۔
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے شعبہ امور خارجہ کے نمائندہ دفتر مشہد کے زیر انتظام منعقدہ سیمینار کے دوسرے مقرر المصطفیٰ بین الاقوامی یونیورسٹی کے مشہد کیمپس کے رئیس الجامعہ حجۃ الاسلام والمسلمین محمد رضا صالح تھے۔