اس وقت دنیا کی نگاہیں کابل پر جمی ہوئی ہیں کہ یہ اچانک طالبان کیسے چھا گئے۔ یہ طالبان کیا کرنے والے ہیں؟ انکا طرزِ حکمرانی کیا ہو گا؟۔ حالات کس طرف جائیں گے؟ کیا طالبان کے مستقبل کے اقدامات اب تک سامنے آنے والے ان کے بیانات کے مطابق ہوں گے یا یہ بیانات صرف تسلط کے عمل کو مکمل کرنے کی ٹیکٹکس کا حصہ ہے۔ عالمی میڈیا کا اس وقت سب سے بڑا موضوع افغانستان اور طالبان ہیں۔ میڈیا ہاؤسز اور تجزیہ نگار، مبصرین حتی حکومتیں بھی انتظار کر رہی ہیں کہ مستقبل میں طالبان کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔
افغانستان میں آنے والی تبدیلی کے بارے میں یقین کے ساتھ کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ لیکن یہ تبدیلی ایک نئی حقیقت کا روپ اختیار کر چکی ہے۔ یہ حقیقت مستقبل قریب میں عالمی برادری اور خصوصاً ہمسایہ اقوام کے لیے کچھ ایسے چیلنجز کھڑے کرے گی اور کچھ ایسے حالات و واقعات رونما ہوں گے جن کا سامنا ناگزیر ہوجائے گا۔
افغانستان کی اب تک کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے قابل احترام قارئین کے لیے سوال و جواب کی صورت میں ایک مختصر تبصرہ پیش کررہا ہوں۔ اس میں تقریباً ان اکثر سوالات کا احاطہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو اس وقت ایک عام قاری کے ذہن میں افغانستان کے حوالے سے موجود ہیں۔ افغانستان کی صورتحال پر مستقبل قریب کے فیصلے اور اقدامات بہت زیادہ اثر انداز ہوں گے اس لیے کوئی بھی رائے حتمی نہیں ہے۔ افغانستان میں تبدیلیاں اس تیزی سے رونما ہورہی ہیں کہ مبصرین اور ماہرین کے لیے حیران کن ہیں اور یہ بات خود افغانستان کی صورتحال کے ناقابل پیش بینی ہونے پر شاہد ہے۔
س 1 : طالبان کا اقتدار اور نظام کیسا ہو گا؟
ج : اس کا انحصار انکی فکری بنیاد، رویوں اور عملی اقدامات پر منحصر ہے۔
س 2 : انکا طرز حکومت یا نظام کے خد و خال کیا ہو سکتے ہیں ؟
ج : انکی فکر و سوچ کے انداز سے یہی لگتا ہے کہ وہ شریعت کا نفاذ خاندانی ملوکیت نہیں قومی و جماعتی ملکوکیت کے طرز پر کریں گے۔
س 3 : قومی جماعتی ملوکیت سے کیا مراد ہے ؟
ج: قرائن اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فرار ہو کر طالبان کے اقتدار کی راہ ہموار کرنے والا سابقہ صدر اشرف غنی ہو یا کابل میں رہ کر اقتدار کی چابیاں طالبان کو پیش کرنے والے حامد کرزائی ، عبد اللہ عبداللہ اور گلبدین حکمتیار ہوں اور دوسری طرف اقتدار پر براجمان ہونے والے دولت اسلامیہ کے خواھاں طالبان ہوں ان سب کا تعلق پختون قومیت سے ہے اور تبدیلی کے باوجود مسندِ اقتدار پختون قومیت کے پاس ہی رہے گی۔ اور پختون اقتدار کی میخیں شریعت اسلامی کے کارڈ سے مضبوط کی جائیں گی۔ عوامی مشاورت یا ووٹنگ کے ذریعے نہیں بلکہ ملوکیت کے انداز سے نظام حکومت چلائے جانے کا امکان زیادہ ہے۔
امریکی جریدے فارن پالیسی نے اپنے گزشتہ روز کے ایک مضمون میں طالبان قیادت کے نزدیکی ذرائع سے اس بات کی تائید کی ہے کہ طالبان حکومت 12 رکنی منصوب شورای کے ذریعے چلائی جائے گی جو مختلف وزارتوں اور صوبوں کے سربراہ خود معین کرے گی۔ اس وقت تک برآمدہ اطلاعات کے مطابق عوام کے حق رائے دہی اور عوامی رائے سے حکومت کی تشکیل کی کوئی خبر سامنے نہیں آئی ہے۔ ضمنا طالبان کی طرف سے حالیہ تمام تقرریاں مثلا مرکزی افغان بینک کے سربراہ اور وزارت تعلیم کے سربراہ کی تقرری قومی مشاورت کے بغیر اور پشتون بلکہ پشتون طالبان رہنماؤں میں سے کی گئی ہے۔ ہرات جیسے صوبے جہاں پختونوں کی تعداد 25 فیصد سے بھی کم ہے وہاں بھی گورنر سے لیکر ایک عام انتظامی افسر تک تمام اہم تقرریاں پشتون طالبان رہنماؤں کی کی گئی ہیں۔ حالیہ تقرریاں ہمارے اس خدشے کو تقویت پہنچاتی ہیں کہ مستقبل کے افغانستان میں جماعتی ملوکیت کو کسی دوسرے طرز حکمرانی پر فوقیت حاصل ہوگی۔ البتہ آنے والے چند دن اور چند ہفتے حقیقی صورتحال کی مزید وضاحت کریں گے۔
س 4 : آیا طالبان افغانستان کی سابقہ حکومت و اپوزیشن کے مختلف سیاسی گروہوں کو اپنے اقتدار میں شامل کریں گے جیسا کہ وہ اس وقت سب اقوام و ادیان و مذاھب کو شامل کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ ؟
ج : حالیہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے اقتدار میں شمولیت کے چند ممکنہ طریقے ہوسکتے ہیں۔ جنکی وضاحت تین نکات میں کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
1- پہلی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ تمام افغان دھڑوں کے ساتھ مل کر آئندہ کے طرز حکومت کا تعین کیا جائے۔ وسیع قومی اتفاق اور عوامی حمایت کے ساتھ ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے۔ طالبان کا فکری پیراڈایم اور ماضی بتاتا ہے کہ اس قسم کی شراکت کی کابل کے فاتح طالبان سے توقع رکھنا بعید ہے۔
اس قسم کی شراکتِ اقتدار ملک میں سیاسی استحکام اور نظام کی پائیداری و مضوطی کی ضمانت ہے اور مختلف طبقات کے اندر احساس محرومیت کا خاتمہ کرتی ہے جس کا امکان معدوم ہے۔
2- میرے فہم اور حالات سے آشنائی کے مطابق طالبان جس شراکتِ اقتدار کی بات کر رہے ہیں وہ انکے ھاتھ پر بیعت کرنا ہے۔ جو سیاسی رہنما اور قبائل کے سربراہ آکر طالبان کی بیعت کر لیں گے اور انکی اطاعت اور ان کی قیادت سے وفاداری کا وعدہ کریں گے۔ وہ اقتدار کے شریک بن جائیں گے۔ اور جو بیعت نہیں کریں گے وہ شریعت کے باغی شمار ہونگے ۔ اور انکے لئے پھر افغانستان میں زندگی گزارنا مشکل ہو گا۔ البتہ طالبان ڈپلومیٹک زبان میں اس بیعت کرنے کو انڈر سٹینڈنگ بھی کہہ سکتے ہیں ۔
3 – اگر موجودہ شناختہ شدہ سیاسی چہرے آ کر انڈر سٹینڈنگ نہیں کریں گے تو وہ سب اقوام و مذاھب و ادیان سے اپنے وفادار اور قابل اعتماد افراد کو پھر بھی اقتدار میں شامل کریں گے خواہ وہ تیسرے یا چوتھے درجے کی شخصیات ہوں یا بالکل نئی اپنی حمایت یافتہ شخصیات متعارف کروائیں اور انہیں ان اقوام و مذاھب و ادیان کے لیڈران کے سامنے لا کھڑا کریں گے۔
س 5 : پاکستان پر نئی حکومت سے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ ؟
ج : مثبت اور منفی یقینا دونوں قسم کے اثرات مرتب ہوں گے۔
مثبت اثرات : ایک ھمسایہ ملک ہونے کے اعتبار سے پاکستان کا فائدہ اسی میں ہے کہ اس کے پڑوس میں امن و امان برقرار رہے۔ اور ہمسایہ ملک کی سرزمین اسکے خلاف استعمال نہ ہو۔ مشرقی سرحد پر ہمارا دشمن ملک بھارت جو طاقت کے ذریعے کشمیر پر قابض ہے ۔ ہمیشہ ہمارے خلاف سازشیں کرنے اور جنگیں مسلط کرتا رھتا ہے اور افغانستان کو بھی ان گزشتہ تقریباً بیس سالوں میں ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا آیا ہے اسے طالبان کے آنے سے بہت دھچکا لگا ہے۔ اور اسکی سب پلاننگ اور سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے۔
اس کے علاوہ پاکستان نے افغان طالبان کے ساتھ تعلقات کی بڑی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ تو یقینا طالبان کا اقتدار میں آنا سابقہ حکومت سے یقینا بہتر ہو گا۔ اور پاکستان اپنی پشت کو محفوظ محسوس کرے گا۔ اور خطے میں پاکستان کی اہمیت بڑھے گی۔ دو طرفہ تجارت بڑھے گی۔ عوام کے لئے روزگار کے مواقع بڑھیں گے جو کہ دونوں ملکوں کے عوام کی خوشحالی کا باعث ہو نگے۔ اس کے علاوہ بھی اور فوائد بیان کئے جا سکتے ہیں ۔
منقی اثرات : طالبان حکومت کے آنے کے بعد پاکستان میں کئی طرح کے مسائل اور مشکلات جنم لے سکتے ہیں ہم فقط دو بنیادی نکات کو بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
1- طالبان کا ہم مسلک اور ھم فکر طبقہ پاکستان کو بھی افغانستان سمجھ کر اقلیت ہوتے ہوئے بھی اقتدارِ اسلام آباد پر براجمان ہونے کی دوڑ کو تیز کر سکتا ہے۔ جس سے ملک میں مذھبی منافرت ، فرقہ ورائیت اور مسلکی تسلط کی جنگ کا ماحول بن سکتا ہے۔ پہلے ہی یہ طبقہ جہادِ افغانستان سے متاثر ہو کر سینکڑوں بریلوی مسلک کے علماء اور اولیاء کرام کے مزارات کو اپنی دھشتگردی کا نشانہ بنا چکا ہے۔ اور اسی طرح ملک کے دوسری بڑی مذھبی اکثریت شیعہ مذھب کی ٹارگٹ کلنگ اور انکی عبادت گاہوں اور بازاروں میں دھماکے کروا چکا ہے۔ ملک کی دیگر ھندو مسیحی ودیگر اقلیتیں بھی انکے شر سے پہلے بھی محفوظ نہیں۔ متعدد بار انکی دھشتگردی کا نشانہ بن چکی ہیں۔ ملک کے حساس ادارے اور مراکز حتی کے اسکولوں کے ننھے بچے بھی انکی وحشت و بربریت کا نشانہ بن چکے ہیں۔
أفغانستان میں طالبانی شریعت کا نفاذ پاکستان میں انکے تصورات کے مطابق شریعت کے نفاذ کے مطالبے کی راہ ہموار کرے گی۔ ابھی سے دارالحکومت کی ایک مسجد سے واویلا شروع ہو چکا ہے۔ علاوہ ازیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے رہنماؤں نے کابل جیل سے رہا ہوتے ہیں پاکستان میں بھی افغانستان کی طرز پر شریعت کے نفاذ کی کوششیں تیز کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس دوران حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ افغانستان پر مسلط طالبان نے پاکستان کو یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی ہمسائے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے لیکن بہرحال ہر عمل کے کچھ اثرات ہوتے ہیں اور کابل پر طالبان کے تسلط کے اثرات میں سے ایک اثر پاکستان میں مذہبی شدت پسندوں کی سرگرمیاں تیز ہونے کی صورت میں ہوسکتا ہے۔
2- ایک اور نکتہ جو مذھبی کارڈ سے زیادہ خطرناک ہے جو ملک کی تقسیم کی راہیں ھموار کر سکتا ہے۔ اور وہ قومی کارڈ کا استعمال ہے۔ پختونستان اور پختون قومی ایشو پہلے ہی استعماری ایجنڈے کا حصہ ہے اور پاکستان کے پختون علاقوں کو افغانستان کی پختوں حکومت سے ملحق کرنے کا کارڈ ملک دشمن قوتیں استعمال کر سکتی ہیں۔ اس سوچ کی پی ٹی ایم جیسے قومی انتہاء پسندوں کے علاوہ سابقہ کانگرسی اتحادی لیڈرز ، خواہ قوم پرست ہوں یا مذھبی لیڈر حمایت وترویج کریں گے۔
یہاں پر قوم سلامتی کے ذمہ داران مقتدر ادارواں اور حکومت وقت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ افغانستان میں اس آنے والی تبدیلی کو فقط ایک آنکھ سے نہیں بلکہ دونوں آنکھیں کھول کر دیکھے۔ اور مسائل کو ہر جانب سے دقت کے ساتھ پرکھے۔ تاکہ وقت گزرنے کے بعد آنے والے حکمران یہ نہ کہتے سنائی دیں کہ ہم نے ایک بار پھر غلط افغان پالیسی پر عمل کیا اور مختلف مسائل و امور کو بصیرت کی نگاہ سے نہیں دیکھا۔ اور ان ممکنہ خدشات کے علاج کے لئے جامع پالیسی بنائیں اور سختی سے اس پر عمل بھی کریں۔
پاکستان کے حوالے سے دوسری ذمہ داری بریلوی وشیعہ بزرگان و اکابرین ملت اور مذھبی قائدین، اداروں اور تنظیموں کی بنتی ہے کہ وہ بھی بروقت اپنی زمہ داریاں ادا کرنے کی سر جوڑ کر جامع پالیسی وضع کریں۔ اور باھمی وحدت واتحاد واتفاق کو فروغ دیکر ملکی استحکام اور مذھبی حقوق کا دفاع کریں یہ ملک پاکستان کے شیعہ اور سنی اکابرین نے ملکر بنایا تھا جب تک یہ متحد ہیں یہ ملک بھی قائم رہے گا اور اسے کوئی آنچ نہیں آئے گی ۔ لیکن اگر مسلکی تسلط کی جنگ چھڑ گئی تو پھر وطن عزیز کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ کابل پر طالبان کے تسلط کے بعد مسلکی جنگ کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔ اللہ تعالی ہمارے وطن عزیز کو قائم و دائم رکھے۔