2018 کے انتخابات میں مقاومت کی حمایت کرنے والی سیاسی پارٹیوں اور آزاد امیدواروں کو اکثریت ملی۔ جواب میں امریکہ، فرانس اور خطے میں ان کے عرب اتحادیوں نے لبنانی عوام کو مقاومت کی حمایت کا ووٹ دینے کے جرم کی سخت سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ اس ضمن میں لبنان میں بنیادی طور پر دو طرح کے بحران کھڑے کئے گئے ہیں۔
- سیاسی بحران: شیعہ اور مسیحی برادری کے حصے کی پارلیمنٹ کی نشستوں میں واضح اکثریت مقاومت کی حمایت کرنے والوں کی تھی۔ جبکہ اھل سنت نشستوں پر اکثریت مقاومت مخالفین کے پاس تھی۔ حکومت کا سربراہ کیونکہ اکثریتی سنی پارٹی کے امیدوار کا حق ہوتا ہے اس لئے مستقبل پارٹی کے سربراہ سعد الحریری کو پہلے موقع دیا گیا ۔ لیکن وہ حکومت داری کے راستے میں رکاوٹ کے ایجنڈے پر گامزن تھا آخر کار ایک دوسرے متفقہ شخص حسان دیاب کو وزیر اعظم چنا گیا۔ ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے کہ 4 اگست 2019 کو بیروت بندرگاہ کا ھولناک دھماکہ ہوا اور لاکھوں معصوم شہریوں کی جانوں کے علاوہ اقتصادی طور پر بھی بہت بڑا نقصان ہوا جس سے پورا ملک ہل کر رہ گیا۔ عوامی پریشر میں وزیراعظم حسان دیاب نے استعفیٰ دے دیا۔ اور اس وقت سے لیکر آج تک لبنان میں حکومت نہیں بن سکی۔ قائم مقام مستعفی حکومت نظام چلا رہی ہے۔ امریکہ، اسرائیل اور فرانس نہیں چاھتے کہ یہ سیاسی بحران ختم ہو اور انکی پوری کوشش ہے کہ عوام کو مقاومت کا مخالف کر دیا جائے اور عوامی حمایت جب نہیں رہے گی۔ تو پھر اس مقاومت کا خاتمہ آسان ہو جائے گا۔ لبنان امریکہ وسعودیہ نواز سیاستدان سعد الحریری ، مسیحی لیڈر سمیر جعجع اور درزی لیڈر ولید جنبلاط امریکی و مغربی ایجنڈے پر پوری طرح عمل پیرا ہیں اور مقاومت کی مخالفت میں کوئی موقع ھاتھ سے جانے نہیں دیتے۔
- معاشی بحران: معاشی بحران کا تعلق چونکہ عام لوگوں کے روزگار ومعاش اور روز مرہ کی ضروریات زندگی سے ہوتا ہے اس لئے یہ بحران سیاسی بحران سے کئی گنا زیادہ خطرناک ہوتا ہے ۔ لبنان پر امریکی پابندیوں اور ملک کا سرمایہ اور غیر ملکی حسابات بیرون ملک منتقل ہونے کے بعد مرکزی بنک میں زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی اور کرپٹ سیاستدانوں کا حمایت یافتہ امریکہ نواز حاکم سینٹرل بینک ریاض سلامہ کی ناقص پالیسیوں کے نتیجے میں ملکی کرنسی جو کئی دھائیوں سے ایک ڈالر کے مقابلے میں 1500 تھی اب گر کر ایک ڈالر کے مقابلے میں 20000 ھزار تک پہنچ چکی ہے۔ حکومت اپنے ملازمین حتی کہ فوج و پولیس کے ملازمین تک کو تنخواہیں دینے میں مشکلات کا شکار ہے۔ اور دوسری جانب کرنسی کے گرنے سے کل جس شخص کی تنخواہ 1000 ڈالرز تھی اور اسکا معیار زندگی اس سطح کا تھا اب اسکی وہ تنخواہ 100 ڈالرز سے بھی بہت کم ہو چکی ہے۔ ملک کی 80 % سے زیادہ عوام غربت کی لائن کے نیچے جا چکی ہے۔ درآمدات کے لئے ملکی خزانے میں زر مبادلہ نہیں ۔ بنیادی ضروریات زندگی کی اشیاء، ادویات ، ڈیزل ، پٹرول تک کی شدید کمی ہے۔
جزب اللہ کی کوششیں اور مقاومت کے سربراہ کا شجاعانہ اعلان
ملک کو سیاسی واقتصادی بحرانوں سے نکالنے کے لئے حزب اللہ لبنان کے سربراہ علامہ سید حسن نصر اللہ نے ہر سطح پر مسلسل کوششیں کیں اور لبنان کو ان بحرانوں سے نکالنے اور عوام کی مشکلات کو کم کرنے کے لئے انہوں نے حکمرانوں کو اپنی طرف سے ہر ممکنہ تعاون کا یقین دلایا۔ دوسری طرف شیعہ علاقوں میں عوام کی مالی مشکلات کے پیش نظر امام سجاد سمارٹ کارڈ کا اجراء کیا گیا۔ کہ جس کی بدولت اس کارڈ کا حامل ایک خاص مقدار تک مخصوص سپر مارکیٹوں اور تجارتی مراکز سے سستی قیمت پر زندگی کی تمام ضروریات خرید سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں آج شدید مہنگائی کے دور میں بھی انکا جمہور نسبتا دوسروں سے بہتر زندگی گزار رہا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ اپنے خطابات میں گذشتہ دو سالوں سالوں سے حکمران طبقے کو کہتے چلے آ رہے ہیں کہ اگر غرب تمھارے ساتھ تعاون کرنے پر تیار نہیں اور بحرانوں سے نکالنے کے لئے تعاون نہیں کر رہا تو ان پر اب انحصار کئے بغیر مشرقی بلاک کی طرف جائیں روس ، چائنا اور ایران ہماری مدد کر سکتے ہیں ۔ ادھر اپنے تعلقات بنائیں اور ملک و عوام کو مشکلات سے نجات دلائیں۔ لیکن کرپٹ سیاستدان اور بیوروکریسی ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ ملک میں فیول کی کمی کے باعث بجلی کی لوڈ شیڈنگ 23 گھنٹوں تک پہنچ چکی ہے۔ متبادل پاور کی ضروریات پوری کرنے والے جنریٹرز اور دیگر ذرائع ڈیزل کی کمی کے باعث کام نہیں کر رہے۔ کارخانے بند ہو چکے ہیں ہسپتالوں میں بجلی نہیں پٹرول پمپوں پر کئی کلومیٹر لمبی لائنیں ہوتی ہیں اکثر پٹرول پمپ تو بند ہو چکے ہیں۔ کرنسی کے گرنے کے باعث ذخیرہ اندوزوں نے لاکھوں لیٹر ڈیزل اور پٹرول کا ذخیرہ کر لیا ہے۔ بلیک مارکیٹ میں کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ آخر کار سید مقاومت نے دس محرم کے خطاب میں شجاعانہ اعلان کیا ہے کہ اب ہم ایران سے ڈیزل خریدنے جا رہے ہیں ہمیں کسی غیر ملکی پابندیوں کی پرواہ نہیں۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب میں کہا ہمارے ڈیزل بردار بحری جہاز چند دنوں میں ایران سے چلیں گے ۔ اور یہ بحری جہاز ہماری حمایت میں ہوں گے۔ ان پر کسی قسم کا حملہ اور رکاوٹ لبنان پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ اور ہم اپنا دفاع کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ انہوں نے پوری دنیا امریکہ و اسرائیل سب کے لئے اعلان کر دیا کہ ایران سے لیکر لبنان بندر گاہ تک کا سارا روٹ ہمارے نزدیک لبنانی سرزمین ہو گی ۔ اور جو بھی حملہ کرے گا وہ لبنان پر حملہ تصور ہو گا۔ اب ایران سے بحری جہاز روانہ ہو چکے ہیں۔ جو چند دنوں میں لبنان پہنچیں گے۔ سید مقاومت نے کہا ہے کہ بھوک وپیاس میں مبتلا کر کے دشمن لبنانی عوام کو ذلیل کرنا چاھتا ہے اور ہمیں یہ ذلت ہرگز گوارا نہیں ہے۔ سید مقاومت سید حسن نصر اللہ علاقائی دوستوں اور مقاومتی محاذ میں شامل طاقتوں کے ذریعے لبنانی عوام کی مشکلات حل کرنے میں کوشاں ہیں جبکہ دوسری طرف امریکہ ومغرب نواز لبنانی سیاستدان بہت پریشان اور بوکھلاہٹ کا شکار دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن لبنانی عوام کی امیدیں صادق الوعد قائد سے وابستہ ہو چکی ہیں۔
لبنانی عوام حزب اللہ کی طرف سے ایران سے تیل خرید کر لبنانے لائے جانے کے اقدام کی تحسین کررہی ہے اور حزب اللہ کے اس شجاعانہ اقدام سے لبنانی عوام کی امیدیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں کہ ایرانی تیل سے تباہی کے دہانے پر پہنچی معیشت کو لچھ سہارا ملے گا اور توانائی کا بحران کسی حد تک قابو میں آسکے گا۔
مقاومت نے عسکری اور دفاعی محاذ پر کئی بار اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے۔ ناقابل شکست کہلوانے والے غاصب اسرائیل کو ناکوں چنے چبوائے ہیں۔ جس کو دیکھتے ہوئے امید کی جاسکتی ہے کہ مقاومت سیاسی و معاشی محاذ پر بھی کامیاب ہوگی اور لبنانی عوام کی مشکلات کم کرنے اور بحران ختم کرنے میں نمایان کردار ادا کرسکے گی۔