کشمیری مظلوموں کی حمایت اور سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم کا عزم /تحریر: ح ا ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

1931 میں کشمیر کی موجودہ تحریکِ آزادی کا آغاز ہوا۔  اس وقت شاعر مشرق علامہ محمد اقبال  ؒ اس تحریک کے روحِ رواں تھے۔ 13جولائى 1931 کو سری نگر  میں مہاراجہ کے خلاف زبردست مظاہرے ہوئے۔  ایک بڑا مظاہرہ سری نگر کی  مرکزی جیل کے باہر بھی ہوا۔ مظاہرین پر مہاراجہ کی فورس نے سیدھی گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 17 کشمیری شہید ہوئے۔ اس وقت پورے  ہندوستان  میں مسلمانوں کی آزادی واستقلال کی تحریک مسلم لیگ چلا رہی تھی۔ اس  سانحے  سے سارے ہندوستان میں غم و غصے کی لہر پھیل گئی۔ شہدا کا مقدس خون تحریک آزادی کشمیر کیلئے  ایسا ایندھن ثابت ہوا کہ جس نے اناً فاناً تحریکِ آزادی کو اپنے عروج پر پہنچا دیا۔  14 اگست 1931 کو سیالکوٹ میں ایک بھرپور عوامی اجتماع ہوا جس میں شرکاء کی تعداد ایک لاکھ سے زیادہ تھی۔  یوں  یہ تحریک   بغیر کسی وقفے اورٹھہراو کے آگے ہی بڑھتی رہی۔

جب 1946 کے عام انتخابات میں بھر پور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ مسلم لیگ کو کامیابی حاصل ہوئی تو حکومت برطانیہ  و  کانگرس سمیت مسلمانوں کے  سب کے سب  مخالفین ہندوستان کے مسلمانوں کے استقلال وآزادی کے مطالبے کو قبول کرنے پر مجبور ہو گئے۔  قائداعظم محمد علی جناح کی والہانہ قیادت کی حکمتِ عملی اور مسلمانوں کی بیداری اور میدانِ عمل  میں فعال موجودگی  سے ۱۴اگست ۱۹۴۷ کو  دنیا کے نقشے پر آزاد وخود مختار  مملکت خدادا پاکستان کا سورج نمودار ہوا۔ سوائے چند ایک کے  ایسے تمام صوبے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہ پاکستان کا حصہ بنے۔  خطّہ کشمیر کا شمار اُن بدقسمت علاقوں میں ہوتا ہے جو مُسلم اکثریت کے باوجود  پاکستان میں شامل نہ ہو سکے۔ یاد رہے کہ کشمیر میں اس وقت نوّے فی صد سے زیادہ آبادی مسلمانوں کی تھی اور جغرافیائی ومذہبی وثقافتی طور پر وہ پاکستان کا حصہ تھے۔ جب انہیں ان کا حق نہیں دیا گیا تو یہ مسئلہ ایک تنازعے کی حیثیت اختیار کر گیا۔ اس تنازعے نے کچھ ہی دنوں میں جنگ کی شکل اختیار کی اور پاکستان و بھارت دونوں میدانِ جنگ میں بدل گئے۔  انڈیا نے مسئلے کی نزاکت اور اپنی کمزوری کا احساس کرتے ہوئے  اقوام متحدہ کی طرف رجوع کر کے جنگ رکوا دی اور اقوام متحدہ نے قرارداد پاس کی کہ فعلا جنگ بندی کی جائے اور یہ علاقہ متنازعہ ہے جب تک کہ کشمیری عوام  استصواب رائے سے اپنے مستقبل کا فیصلہ  نہیں کرتے۔ اس کے بعد 1948 سے لیکر آج تک ہندوستان نے کشمیریوں کو اُن کایہ حق فراہم نہیں کیا۔  اقوام متحدہ بھی اس پر خاموش ہے۔ جبکہ کشمیری عوام نے اس غلامی کو کبھی قبول نہیں کیا ۔ آزادی کے متوالے مسلسل عظم قربانیاں دے کر مسلسل  دنیا کے مردہ ضمیر کو جھنجھوڑ رہے  ہیں۔ یہاں پر قابلِ ذکر ہے کہ مہاراجہ ہری سنگھ اور بھارت حکومت کے درمیان 26 اکتوبر 1947 کو یہ طے پایا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کو آئینی طور  پر خصوصی حیثیت دی جائے گی۔ 17 اکتوبر 1947 کو آرٹیکل 370 نافذ کر دیا گیا۔ بھارت کے آئین کے مطابق مقبوضہ کشمیر ایک خصوصی حیثیت کی ریاست بن گئی۔ پھر 14 مئی 1954 کو صدارتی آرڈیننس  کو 35 اے کا نام دیا گیا اور بھارتی آئین میں اسے شامل کیا گیا ۔ آرٹیکل 35 اے کے تحت جموں وکشمیر بھارت کی دیگر ریاستوں کے شہریوں کو اس ریاست کے شہری حقوق سے محروم کیا گیا۔ یعنی کشمیریوں کے علاوہ کوئی بھارتی شہریت کا حامل جموں  وکشمیر میں زمین نہیں خرید سکے گا اور نہ ملکیت اس کے نام منتقل ہو گی۔

اب آئیے موجودہ دور کی طرف۔ بھارت کی  موجودہ متعصب ہندو حکومت برسر اقتدار آئی تو بی جے پی اور آر ایس ایس کی متعصب حکومت کے سربراہ نریندر مودی نے 5 اگست 2019 کو کشمیری کی محدود استقلالیت اور خصوصی حیثیت بھی ختم کر دی اور آرٹیکل 370 اور 35 اے کو بھی کالعدم قرار دیکر کشمیر عوام کی مظلومیت و محرومیت میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔  یوں  90 لاکھ کشمیریوں پر مزید  شکنجہ کس دیا گیا۔

اقوام متحدہ کے ایک انسانی حقوق کے ادارے کی رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ بھارتی فورسز  نے گزشتہ فقط 32 سالوں میں 122771 کشمیری گرفتار کئے اور ان میں سے  7023 افراد حراست کے دوران انڈین فورسز نے قتل کیے۔ اسی طرح  105996 گھر تباہ کئے گئے اور  22776 خواتیں بیوہ کر دی گئیں ، اس کے علاوہ  107466 بچے یتیم کر دییے گئے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے کمیشن میں ایک انگریز بھارتی انسانیت سوز مظالم کی رپورٹ بیان کرتے ہوئے رو رو  کر کہہ  رہا تھا کہ مقبوضہ جمو ں و کشمیر میں 10086 خواتین کے ساتھ انڈین فورسز نے اجتماعی زیادتی کی ۔ لاکھوں لوگ بے روز گار ہوئے اور ملازمتوں سے نکال دئیے گئے اور اربوں ڈالرز کا  کشمیریوں کو اقتصادی نقصان ہوا۔

تحریک ِ آزادی کو دبانے کے لئے وادی جموں و کشمیر  میں اس وقت تقریبا 9 لاکھ انڈین مسلح فورسز اور آر ایس ایس کے ایجنٹ  تعینات ہیں یعنی ہر نویں شخص کے سر پر ایک فوجی کا پہرہ ہے۔ دنیا سے  کشمیریوں کا رابطہ کاٹ دیا گیا ہے ہر چیز پر سنسر ہے۔ 5 اگست 2019 کے ظالمانہ اقدامات کے بعد سینکڑوں لوگ بے دردی سے شہید کر دئیے گئے ہیں اور سیکڑوں گھر تباہ کئے گئے ہیں اور موت کا رقص شبانہ روز جاری ہے۔

عالمی برادری  بے حس بھی ہیں اور بے بس بھی۔ حریت پسند کشمیری عوام ذلت کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے والی قوم ہیں۔ انھوں نے عہد کیا ہوا ہے کہ جب تک ایک کشمیری بچہ بھی اس سرزمین پر زندہ ہے یہ تحریک کبھی ختم نہ ہو گی۔ کشمیری عوام ، ننھے بچے اور خواتین ہر روز دنیا کے مردہ ضمیر حکمرانوں  کو جگانے کے لئے گولیوں کا نشانہ بن رہے ہیں لیکن کوئی انکی مظلومیت کی داستان سننے والا نہیں۔  اب  ضرورت اس امر کی ہے کہ عوامی سطح پر مسئلہ کشمیر کو پوری دنیا میں اٹھایا جائے ۔ عالمی برادری کو  کشمیری عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی صورتحال بتانے کی ضرورت ہے۔ یہ دو ملکوں  کا سرحدی مسئلہ نہیں ہے بلکہ  یہ 90 لاکھ انسانوں کو اُن کا بنیادی ،انسانی اور جمہوری حق دلانے  کا مسئلہ ہے۔ سپورٹ کشمیر انٹرنیشنل فورم اہلیانِ کشمیر کو اُن کے دینی،  انسانی، سیاسی، اور جمہوری حقوق دلانے کیلئے پُر عزم ہے۔ ہمارا یہ عہد ہے کہ ہم صرف۵ فروری کو ہی نہیں بلکہ   مقبوضہ کشمیر میں آزادی کا سورج طلوع ہونے تک  ہمیشہ مظلوم کشمیریوں کی حمایت کیلئے آواز بلند کرتے رہیں گے۔

image_pdfSave as PDFimage_printPrint
Share this post

Related Posts

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے