از: حجۃ الاسلام والمسلمین ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
حزب اللہ لبنان کے قائد شہید سید حسن نصراللہ ؒ نے فروری 1992 میں علامہ سید عباس موسویؒ کی شہادت کے بعد جب حزب اللہ کی قیادت سنبھالی تو ان کی عمر محض 32 سال تھی۔ یعنی عین جوانی کے ایام میں خدواندمتعال نے انہیں اس الہی ذمہ داری کیلئے منتخب کیا۔ یہ وہ دور تھا جب اندرونی طور پر لبنان کے اندر داخلی تنازعات باقاعدہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کر چکے تھے اور بیرونی طور پر غاصب اسرائیل جنوبی لبنان پر مکمل طور پر قابض تھا۔ ایسے حالات میں شہید علامہ سید حسن نصراللہؒ کی سربراہی میں حزب اللہ نے نہ صرف داخلی تنازعات کو ختم کرنے کے لیے عملی اقدامات کیے بلکہ اسرائیل کے خلاف مسلسل مزاحمت کر کے غاصب رجیم کو لبنان کا قبضہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور صہیونی رجیم 25 مئی 2000 کو راتوں رات اپنا اسلحہ اور ساز و سامان چھوڑ کر لبنان سے بھاگ کھڑی ہوئی۔ اسرائیل کی مشرق وسطی میں یہ پہلی ذلت آمیز شکست تھی کہ جس میں غاصب رجیم نے بغیر کسی جنگی معاہدے کے فرار کا راستہ اختیار کیا۔ سید حسن نصراللہ ؒ کی قیادت میں حزب اللہ کی یہ پہلی بڑی کامیابی تھی جس کے بعد دنیا میں سید مزاحمت سید حسن نصراللہؒ کی شخصیت ابھر کر سامنے آئی۔ پورے عالم اسلام میں حریت پسند سید حسن نصراللہ ؒ سے والہانہ محبت کا اظہار کرنے لگے اور تمام مزاحمتی سوچ رکھنے والے افراد چاہے وہ جس ملک یا جس دین و مسلک سے تعلق رکتھے تھے انہوں نے سید حسن نصراللہؒ سے اپنے عشق کا بھرپور اظہار کیا۔ سید حسن نصراللہؒ نے اپنی 32 سالہ قیادت میں بہت سے محاذوں پر دشمن کا مقابلہ کیا اور پوری دنیا میں انتہائی منفرد شخصیت کے طور مانے گئے۔ شہید سید حسن نصراللہ نے مزاحمت کا جو عہد تشکیل دیا اور اپنے خون سے جس کو امر کر دیا ہے وہ رہتی دنیا تک کے حریت پسندوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔
اس مضمون میں سید مقاومت شہید سید حسن نصراللہؒ کی چند امتیازی خصوصیات بیان کرتے ہیں جو انکی شخصیت کو باقی تمام مسلم امہ کی قیادت سے ممتاز کرتی ہیں۔
بے نظیر شخصیت
سید حسن نصراللہؒ کی شہادت کے موقع پر امام سید علی خامنہ ای حفظہ اللہ تعالی نے سید حسن نصراللہؒ کے لیے بے نظیر شخصیت کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور یقینا ایسا ہی ہے کہ سید شہید حسن نصراللہؒ کا رتبہ بہت بلند ہے کیونکہ سید حسن نصراللہ جن خصوصیات کے حامل تھے وہ امام خامنہ ایؒ کے بعد بہت کم شخصیات میں ملتی ہیں اور خاص طور پر عرب دنیا کے اندر سید حسن نصراللہ ؒکے پایہ کی کوئی شخصیت نہیں ہے۔ سید حسن نصراللہؒ اسلامی اقدار کا ایک مکمل نمونہ تھے جس کے دشمن بھی معترف تھے۔
انتہائی متواضع شخصیت
سید حسن نصراللہؒ کو اللہ تعالی نے خاص سرفرازی سے نوازا تھا اور پوری دنیا میں ان کا مقام و احترام تھا ؛ اس سب کے باوجود ان کی شخصیت کے اندر انتہائی عاجزی و انکساری تھی۔ ہر وہ شخص جو ایک دفعہ بھی سید حسن نصراللہؒ سے ملاقات کرتا وہ ان کی شخصیت کا گرویدہ ہوجاتا۔ کئی دفعہ وہ اپنے حفاظتی پروٹوکولز کی پرواہ کیے بغیر عوام کے درمیان آجاتے تھے اور ان کے ساتھ انتہائی شفیق رویہ اختیار کرتے۔
با بصیرت شخصیت
اللہ تعالی نے سید حسن نصراللہؒ کو کمال بصیرت عطا فرمائی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے دشمن کے ارادوں کو بھانپ لیتے اور آنے والے حالات کی پہلے سے پیش گوئی کر دیتے تھے۔ وہ بیک وقت پوری دنیا کے حالات سے باخبر رہتے تھے۔ مستقبل کی پیش گوئی کے ساتھ ساتھ مستقبل کا لائحہ عمل ترتیب دے کر رکھتے تھے ۔ اپنی حزب اور باقی متعلقہ افراد کو تمام تر حالات سے پیشگی آگاہ کر دیتے تھے۔
دشمن شناس
شہید سید حسن نصراللہؒ دشمن کی تمام تر خوبیوں اور خامیوں سے واقف ہوتے تھے وہ باقاعدہ دشمن کی منصوبہ بندی اور ورکنگ کا عمیق مطالعہ کرتے تھے۔ دشمن کی ہر پیش رفت پر گہری نظر رکھتے تھے۔ ان کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ دشمن کے اچانک وار سے غافل ہونے کی بجائے دشمن کی منصوبہ بندی کے مدمقابل اپنی تمام تر تیاریاں مکمل رکھیں۔ حزب اللہ کے قائم مقام سربراہ شیخ نعیم قاسم کے بقول سید حسن نصراللہؒ نے اپنی شہادت سے قبل پوری قیادت کو اپنی شہادت کی صورت میں متبادل منصوبہ دے دیا تھا ۔ شیخ نعیم قاسم نے اپنے حالیہ خطاب میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ ہم سید حسن نصراللہؒ کی دی ہوئی منصوبہ بندی کے مطابق دشمن کے خلاف عمل پیرا ہیں۔
داعی اتحاد و وحدت
شہید سید حسن نصراللہؒ اتحاد بین المومنین و اتحاد بین المسلمین کا عملی نمونہ تھے۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا دشمن اب تقسیم اور حکمرانی کے اصول کی بجائے تقسیم در تقسیم یعنی مسلمانوں کا تکہ بوٹی کرنا چاہتا ہے اسی لیے تو آئے دن چھوٹے سے چھوٹے اختلاف کو بھی ہوا دے کر پورا بحران کھڑا کیا جاتا ہے تاکہ مسلم دنیا کو مزید تقسیم در تقسیم کیا جائے۔ سید حسن نصراللہؒ دشمن کی اس روش کے مقابلے میں اتحاد و وحدت کی روش پر عمل پیرا تھے۔ جس کا منہ بولتا ثبوت لبنان ہے کہ جس کے اندر سید حسن نصراللہؒ کی قیادت کے بعد ان کی ذاتی کاوشوں سے تحریک امل کے ساتھ ان کے تعلقات مثالی ہوگئے تھے۔ بلکہ دیگر سیاسی گروہوں کے ساتھ بھی ان کے تعلقات بہت اچھے تھے۔ یہ سید حسن نصراللہؒ کی پالیسی ہی کا نتیجہ تھا کہ رفیق الحریری کے قتل کے بعد دشمن شدید کوشش کے باوجود الحریری کی جماعت کو حزب اللہ کے مدمقابل لانے میں ناکام رہا۔ سید حسن نصراللہؒ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی عزت دیتے تھے۔ اتحاد کے حوالے سے سید حسن نصراللہؒ فرماتے تھے: حرام ہے کہ حزب اللہ کی ایک گولی بھی اپنے ہم وطنوں پر چلے۔ ان کے مخالفین نے کئی بار حزب اللہ کے خلاف مسلح کاروائیاں بھی کیں لیکن وہ ہمیشہ اتحاد کی پالیسی پر عمل پیرا رہے اور بالآخر وہ اپنے اس عظیم مقصد میں سرخرو ہوئے۔
سیاسی شعور
شہید سید حسن نصراللہؒ کی شخصیت کا ایک خاصہ یہ بھی تھا کہ ان کو اللہ تعالی نے کمال سیاسی شعور عطا کیا تھا۔ وہ پوری دنیا کی سیاست پر گہری نظر رکھتے تھے اور باخبر رہتے تھے۔ اور جہاں ضروری ہوتا تھا وہ دنیائے سیاست میں اپنا موقف بھی دیتے تھے۔ سید حسن نصراللہؒ نے لبنان کے اندر انتہائی زبردست سیاسی اتحاد قائم کیا جس میں شیعہ،سنی،عیسائی اور دروزی سب شامل ہیں۔ اور آج بھی لبنان کی سیاست میں یہ اتحاد سب سے مضبوط اتحاد ہے کہ جس کی وجہ سے لبنان میں موجود امریکی آلہ کار آج تک حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
اقتدارمحض کی سیاست سے گریز
لبنان سمیت پورے مشرق وسطی میں سید حسن نصراللہؒ کی ان تھک کوششوں کے نتیجے میں اللہ تعالی نے انہیں بہت سی کامیابیوں سے نوازا۔ وہ لبنان کی داخلی سیاست میں سب سے بڑے قد والی شخصیت تھے۔ اور لبنان کے تمام سیاست دان انکی عزت و احترام کے قائل تھے لیکن انہوں نے کبھی حکومت پر قابض ہونے والا رویہ نہیں اپنایا۔ بلکہ لبنانی سیاست میں معاہدے کے تحت شیعہ کو ملنے والا سپیکر کا عہدہ بھی وہ تحریک امل کے ارکان کو دے دیتے تھے۔
امام سید علی خامنہ ای کے سچے عاشق اور پیرو
سید حسن نصراللہؒ حقیقی معنوں میں رہبر انقلاب سید علی خامنہ ای کے عاشق تھے۔ بقول سید حسن نصراللہؒ: انھوں نے ایک دفعہ آیت اللہ العظمی مصباح یزدی رح سے ایک ملاقات میں کہا کہ ہم اطاعت رہبری میں اس چیز کے قائل ہیں کہ مقام معظم رہبری کو حکم صادر فرمانے کا موقع بھی نہیں دیتے۔ بلکہ ہم یہ دیکھتے کہ جو چیز رہبر معظم کو پسند ہے ہم وہ کر گزرتے ہیں اور جو چیز انکو ناپسند ہے ہم اس سے اجتناب کرتے ہیں۔ تو جواب میں مرحوم آیت اللہ یزدی نے فرمایا یہی تو حقیقی ولایت ہے اور اس کا اعلی درجہ ہے ۔ سید حسن نصراللہؒ رہبر شناس تھے جو رہبر معظم کے ارادوں کو بھانپ لیتے تھے۔ سید حسن نصراللہؒ فرماتے تھے : حزب اللہ رہبر معظم کے امر و نہی کی منتظر نہیں رہتی بلکہ رہبر کی منشا کےمطابق پیشگی اقدام کرتی ہے۔ یہی حزب اللہ کی انفرادیت ہے۔
شہادت کے عاشق
سید حسن نصراللہ شہادت کے عاشق تھے ۔ وہ اپنی پوری زندگی شہادت کے منتظر رہے۔ طوفان الاقصی آپریشن میں جب امریکہ نے سید حسن نصراللہؒ کو پیغام بھجوایا کہ آپ حماس کی حمایت سے پیچھے ہٹ جائیں یا آپ کو قتل کر دیا جائے گا تو ان کا جواب تھا کہ یہ شیطان مجھے ذلت کا راستہ اپنانے کا کہتے ہیں جب کہ شہادت ہمارے لیے باعث افتخار ہے۔ بالآخر خداوندمتعال نے سید حسن نصراللہؒ کو شہادت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز کیا۔
شجاعت و استقامت
سید حسن نصراللہؒ پوری عرب دنیا کی شجاع ترین شخصیت تھے۔ ان کی اس خصوصیت کے دشمن بھی معترف تھے۔ وہ کبھی خوف زدہ نہیں ہوتے تھے۔ 2006 کی 33 روزہ جنگ میں جب اسرائیلی جہاز بیروت کے مضافتی علاقے ضاحیہ پر اندھا دھند بمباری کر رہے تھے اور پورا انفراسٹرکچر تباہ کر رہے تھے، ایک کے بعد ایک عمارت صہیونی فضائیہ کی بمباری میں مسمار ہوتی جارہی تھی۔ بقول شہید قاسم سلیمانیؒ اس اندھا دھند بمباری میں کہ جب دشمن کے جہاز آسمان پر اڑتے نظر آرہے تھے سید حسن نصراللہؒ اور ہم اسی علاقے میں رہ کر صہیونیوں کے خلاف جنگ کی مدیریت کرتے رہے اور دوست ممالک کی پیشکش کے باوجود سید حسن نصراللہ نے بیروت چھوڑنے سے انکار کر دیا اور جنگ کو اپنے مجاہدوں اور عوام کے ساتھ رہ کر لڑنے کو ترجیح دی۔ اس میں ان کی جان کو شدید خطرات لاحق تھے لیکن ان کا شجاعانہ انتخاب یہ تھا کہ وہ علاقہ نہیں چھوڑیں گے۔ شہید قاسم سلیمانیؒ کے بقول اس جنگ کے دوران بعض اوقات سید حسن نصراللہؒ کو ایک رات میں کئی بار اپنا مقام تبدیل کرنا پڑتا لیکن وہ شجاعت اور دلیری کے ساتھ اسی علاقے میں رہ کردشمن کے خلاف جنگ کی مدیریت کرتے رہے۔
عزت و کرامت
سید حسن نصراللہؒ عزت و کرامت کے قائل تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ ہماری اسرائیل سے جنگ اپنی عزت و کرامت کی جنگ ہے کیونکہ اسرائیل نے ہمارے قبلہ اول پر قبضہ کر کے ہماری عزت و کرامت کو داغدار کیا ہے لہذا اسرائیل کو اسکی سزا ملے گی۔ سید حسن نصراللہؒ اپنی عوام کو بھی عزت و کرامت کا درس دیتے تھے۔ 2006 کی جنگ میں فتح کے بعد ان کا مشہور خطاب کہ جس میں انہوں نے لبنانی عوام کو مخاطب کر کے کہا تھا: آپ شرافت دار، عزت دار اور پاکیزہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے دشمن کا بھرپور مقابلہ کیا ہے۔ ان کے اس وصف نے انہیں پوری دنیا میں عزت و شرافت کا علمبردار بنا دیا۔
خلاصہ کلام سید حسن نصراللہؒ انسانی اور اسلامی اقدار کا ایک مکمل عملی نمونہ تھے۔ وہ اس صدی کے ان چند عظیم رہنماوں اور شخصیات میں نمایاں ترین ہیں جنہوں نے اپنی قومی ملی دینی اور انسانی غیرت و حمیت کا سودا نہیں کیا اور آزادی اور خود مختاری جیسی عظیم نعمت کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیا۔ انہوں نے مستضعف اور محروم لبنانی قوم کو ایک باوقار اور متحرک قوم میں ڈھال دیا ہے۔ انہوں نے مزاحمت کے شجر کو اس وقت ایک تناور درخت بنا کر پیش کیا جب تخت و تاج پر براجمان عرب و عجم کے اکثر مسلمان حکمران اپنی قومی و ملی او ر دینی و انسانی غیرت پر کمپرومائز کر چکے تھے جب قبلہ اول پر قابض صہیونی رجیم کو ایک حقیقت مان کر دنیا تسلیم کرتی جا رہی تھی، جب قبلہ اول پر قبضے کو ایک تاریخی جبر کے طور پر قبول کیا جا رہا تھا ۔ سید حسن نصراللہؒ نے اپنی بتیس سالہ مزاحمتی قیادت میں جس مزاحمتی نظریے اور نظام کو مضبوط کیا ہے آج وہ سید حسن نصراللہؒ کی غیر موجودگی میں بھی صہیونی رجیم کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے اور عرب و عجم مسلمان عوام کی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کر رہا ہے۔ سید حسن نصراللہؒ نے مزاحمت کا جو عہد تشکیل دیا ہے وہ رہتی دنیا تک حریت پسندوں کے لیے نمونہ عمل ہے۔