شہید اسماعیل ھنیئہ کا مختصر تعارف :
اس عظیم فلسطینی قائد کے والدین نے اسرائیل مظالم کی وجہ سے عسقلان سے ھجرت کی اور فلسطینی پناہ گزینوں کے الشاطی نامی کیمپ میں سکونت اختیار کی۔ 23 مئی 1963 کو اسی کیمپ میں شہید اسماعیل ہنیہ کی پیدائش ہوئی۔
اسماعیل ہنیہ نے ابتدائی اور ثانوی تعلیمی مراحل مکمل کرنے کے بعد 1887 میں غزہ کی اسلامیہ یونیورسٹی میں عربی لٹریچر میں داخلہ لیا۔ آپ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ ایک طالب علم راہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آنے لگے اور ایک دفعہ اسلامیہ یونیورسٹی کے طلبہ اتحاد کے صدر بھی منتخب ہوئے۔ شہید زمانہ طالب علمی میں فٹبال کے بھی ممتاز کھلاڑی تھے۔
1987 ، 1988 اور 1989 میں متعدد بار تحریک اسلامی حماس سے تعلق کی وجہ سے اسرائیلی غاصب حکومت نے شہید اسماعیل ہنیہ کو گرفتار کیا۔ پہلی مرتبہ ایک ماہ جیل میں رہے، دوسری مرتبہ ایک سال اور اسی طرح تیسری مرتبہ بھی ایک سال جیل میں گزارا۔ 1992 میں صہیونی غاصب حکومت اسرائیل نے تحریک حماس سے تعلق کی وجہ سے 400 افراد کو لبنان کی طرف ملک بدر کیا جن میں ایک شہید اسماعیل ھنیئہ بھی تھے۔ 1993 میں ملک بدری گزار کر واپس غزہ آ گئے اور اپنی تعلیم مکمل کرکے بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔
1997 میں شہید اسماعیل ہنیہ کو تحریک حماس کے بانی و قائد شیخ احمد یاسین کے دفتر کی مسئولیت سونپی گئی۔ اپنی عوامی مقبولیت کی وجہ سے آپ فروری 2006 کے انتخابات میں فلسطین حکومت کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔ 2 جون 2014 کو فلسطینی لیڈرشپ کے باہمی اتفاق سے قومی حکومت کی تشکیل پائی تو اس قومی حکومت کے سربراہ بھی دوبارہ آپ ہی منتخب ہوئے۔
6 مئی 2017 کو آپ تحریک حماس کے سیاسی ونگ کے سربراہ منتخب ہوئے۔ 30 جون 2024 کو اسماعیل ہنیہ نے ایران کے نو منتخب صدر مسعود پزشکیان سے ملاقات کی۔ شہید اسماعیل ہنیہ دوحہ سے تہران حلف برداری کی تقریب میں شرکت کرنے آئے تھے۔ رات تقریبا دو بجے تہران کے شمال میں واقع ایک گیسٹ ہاوس میں آرام فرما رہے تھے کہ صہیونی غاصب حکومت کے میزائل حملے میں درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔
شہید اسماعیل ہنیہ کی شھادت ایک بہت بڑا عالمی سانحہ ہے۔ تحریک حماس عالمی استکباری قوتوں کے خلاف فرنٹ لائن پر جنگ لڑ رہی ہے اور گذشتہ دس ماہ سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے کہ فلسطینی غزہ اور دیگر شہروں میں روزانہ کی بنیاد پر قربانیاں دے رہے ہیں۔ فلسطینی امریکہ و غرب کی پشت پناہی میں بننے والی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل سے نجات اور بیت المقدس سمیت پورے فلسطین اور خطے کی آزادی واستقلال کے لئے مردانہ وار جنگ کر رہے ہیں۔ اب تک 40000 سے زیادہ فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ زخمی ہیں۔ اہل غزہ کے تقریبا 90 فیصد گھر اسرائیلی بمباری سے تباہ ہوچکے ہیں۔ نہ تعلیمی ادارے بچے ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی کوئی پناہ گاہ صہیونی درندوں کے وحشیانہ جرائم و مظالم سے محفوظ ہے۔ مسلسل 17 سال غزہ کا مکمل محاصرہ ہے جس کے نتیجے میں بنیادی ضروریات زندگی تک کی وہاں شدید قلت ہے۔
دوسری طرف امت مسلمہ بالکل بے بس اور خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ 57 اسلامی ممالک امریکہ واسرائیل کے ان جرائم کو روکنے سے باکل قاصر ہیں۔ انکی حقیقت کھل چکی ہے کہ یہ سب حکمران اور اکثر اقوام امریکہ و اسرائیل کے غلام ہیں۔ عالمی انسانی حقوق کے دعویداروں و خواتین کے حقوق کے تحفظ کے عالمی علمبرداروں اور بچوں کے حقوق کی پاسبانی کا شور مچانے والوں کی حقیقت کو بھی اھل غزہ نے عیاں کر دیا ہے۔ یہ سب حقوق اور جمہوریت کے دعوے فقط استعماری طاقتوں کے تسلط کے اوزار تھے۔ اھل غزہ نے شفاف آئینے کی طرح خود کو سولائیزیشن کا بہترین نمونہ پیش کرنے والے جو درحقیقت خونخوار اور وحشی درندوں سے بھی بدتر تھے کو بے نقاب کر دیا ہے۔
ایران کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے کا جواب
جب یہ عظیم مرد مجاہد شہید ہوئے تو چاھئیے تو یہ تھا کہ پوری امت مسلمہ بالخصوص عرب اقوام سراپا احتجاج ہوتیں اور امریکہ واسرائیل کے اس وحشیانہ جرم اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی مذمت کرتیں۔ مگر افسوس کے ساتھ عربوں اور مسلم ممالک کے بعض غلام ذھنیت کے ضمیر فروش قلم کاروں اور تجزیہ نگاروں اور سوشل میڈیا ایکٹیویسٹوں نے اس عظیم قائد کے قاتل امریکہ و اسرائیل کے خلاف ماحول سازی کرنے کی بجائے دنیا میں مظلوموں کے تنہا حامی ملک ایران کے خلاف غلیظ پروپیگنڈہ شروع کر دیا۔ گویا دنیا میں یہ پہلا فلسطینی قائد تھا جو کسی دوسرے ملک میں اسرائیل نے قتل کیا۔ اسرائیل کی تاریخ اس طرح کے جرائم سے بھری پڑی ہے اور دسیوں فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں اسرائیل ٹارکٹ کر چکا ہے۔ کسی قائد کو امارات میں قتل کیا تو کسی کو لندن میں اور کسی کو فرانس میں تو کسی کو بلغاریہ و تیونس واردن و مالٹا ودیگر ممالک میں قتل کیا۔ لیکن کبھی ان مذکورہ ممالک کو کسی نے یہ نہیں کہا کہ آپکی کوتاہی سے فلاں قائد اسرائیلی موساد کا نشانہ بنا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ جب تک شہید زندہ تھے اس وقت تک انہیں اور انکے ساتھیوں کو کوئی ملک پناہ دینے کے لئے راضی نہیں تھا۔ اکثر نے تو اسرائیل و امریکہ کی ناراضگی سے بچنے کے لئے ان پر اپنے دروازے ہی بند کر دئیے تھے۔ بلکہ سب اسرائیل کے ساتھ تعلقات بنانے کی صف میں کھڑے تھے۔ اسرائیلی انکے مقدسات اور عزت وشرف سے کھیل رہے تھے اور یہ اس کے سامنے خوشامد کرتے نہیں تھکتے تھے۔ اب جب ایران میں اس عظیم قائد کو شہید کیا گیا تو سب ہمدرد اور وارث بننے کا ڈرامہ کر رہے ہیں اور امریکہ واسرائیل کو خوش کرنے کے لئے فلسطینیوں اور دنیا کے سب مظلوموں کی پناہ گاہ ایران کے خلاف زبان درازی کر رہے ہیں۔ حقائق کو مسخ کر کے بیان کیا جا رہا ہے۔ آئیں آخر میں فقط بطور مثال قارئین کی یاد دہانی کے لئے مختلف ممالک میں فلسطینی قائدین کے خلاف اسرائیلی حملوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ کتنے فلسطینی راہنما بیرون ملک شہید کئے گئے لیکن کبھی بھی میزبان ملک کو کسی نے اس کے قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا۔
1- 8 دسمبر 1972 کو پی ایل او کے راھنما محمود ھمشری کو فرانس میں ایک بم دھماکے کے ذریعے اسرائیل نے شہید کیا۔
2- 10 فروری 1973 کو الفتح تنظیم کے نمائندے حسین البشیر کو اسرائیل نے قبرص میں بم دھماکے سے شہید کیا۔ انکے ہوٹل کے کمرے میں موساد نے بم نصب کیا تھا۔
3- 22 جولائی 1987 کو فلسطینی راہنما ناجی العلی کو اسرائیلی موساد نے برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں شہید کیا۔
4 – 16 اپریل 1988 کو اسرائیل نے الفتح کے راہنما خلیل الوزیر کو تیونس میں انکی رہائشگاہ پر شہید کیا۔
5- 8 جون 1992 کو پی ایل او کے مرکزی راہنما عاطف بسیسو کو اسرائیلی انٹیلیجنس موساد نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں شہید کیا۔
6- 26 اکتوبر 1995 کو تحریک جہاد اسلامی کے بانی سربراہ و قائد ڈاکٹر فتحی شقاقی کو اٹلی کے جنوب میں واقع جزیرہ مالٹا کے ایک مقام پر اسرائیلی انٹیلی جنس موساد نے فائرنگ کر کے شہید کیا۔
7- 19 جنوری 2010 کو حماس کے عسکری ونگ کے ایک قائد محمود المبحوح کو موساد نے عرب امارات کے شہر دبئی کے ہوٹل میں شہید کیا۔
8- 26 فروری 2016 کو فلسطینی راھنما عمر النایف کو اسرائیلی موساد نے بلغاریہ میں فلسطینی سفارتخانے کے اندر شہید کیا۔
9- 15 دسمبر 2016 کو حماس کے عسکری ونگ کے ایک قائد محمد الزواری کو موساد نے تیونس میں شہید کیا۔
10- 21 اپریل 2018 کو حماس کے لیڈر انجینئر فادی البطش کو اسرائیل کی انٹیلیجنس موساد نے ملیشیا کے دارالحکومت کوالالمپور میں شہید کیا۔
اس کے علاوہ فلسطینی قائد احمد جبرئیل کے بیٹے جہاد جبرئیل و دیگر فلسطینی لیڈران حسن علی سلام و غسان کنفانی وصالح عاروری کو اسرائیل نے بیروت میں شہید کیا۔ اور عزالدین شیخ خلیل کو دمشق میں شہید کیا گیا۔
باقی جو کہتے ہیں کہ ایران کیا کر سکتا ہے۔ اس کا جواب فقط وہ لوگ ہی درک کر سکتے ہیں کہ جن کے ذہنوں پر امریکہ وبرطانیہ واسرائیل کا رعب وخوف و غلامی مسلط نہ ہو۔ جنکی نگاہ مادی ہے وہ نماز پڑھتے ہیں لیکن انکے دل میں اللہ اکبر کامفہوم جاتا ہی نہیں؛ وہ تعصب و غلامی وپستی و لالچ کی وجہ سے اس زمانے کے لات و منات وعزی کا ورد کرتے ہیں۔ وہ بار بار در حقیقت امریکہ اکبر۔ برطانیہ اکبر اور اسرائیل اکبر کا ورد کر رہے ہوتے ہیں۔
وہ لوگ نعوذ باللہ یہ سمجھتے ہیں کہ عزت و ذلت اللہ کی بجائے عالمی سامراجی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ استکباری قوتیں جسے چاہیں عزت دیتی ہیں اور جسے چاہیں ذلیل کرتی ہے۔ ان لوگوں کو سب خوبیاں استکباری قوتوں کے ہاتھ میں نظر آتی ہیں۔ ان کے نزدیک بے شک امریکہ وبرطانیہ واسرائیل
ہی ہر چیز پر قادر ہیں۔
اگر ماضی قریب کی تاریخ پر تعصب ولالچ وغیرہ کی عینک اتار کر غور کریں تو یاد آئے گا کہ انہیں استکباری قوتوں نے اپنے خطے کے عرب اتحادیوں کے ساتھ ملکر صدام کو اکسایا اور 8 سال ایران کے خلاف جنگ لڑی لیکن انقلاب اسلامی اور ملت ایران کو فتح نصیب ہوئی کیونکہ انکا ایمان تھا کہ خداوند تبارک وتعالی ہی سب سے بڑی طاقت ہے۔ یہی اسرائیل 2000 میں حزب اللہ اور اسلامی مزاحمت کے حملوں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم دبا کر رات کی تاریکیوں میں بھاگا۔ پھر دوبارہ اسرائیل نے 2006 میں امریکہ و برطانیہ و غرب و عرب کے اتحادیوں کی ہر قسم کی مدد سے 33 روزہ جنگ لبنان پر مسلط کی لیکن پھر پوری دنیا کے سامنے اپنی شکست وذلت کا اعتراف کرنا پڑا اور فتح حزب اللہ کو نصیب ہوئی۔ شام کے صدر کو ہٹانے کے لئے ساری دنیا کی استکباری قوتوں نے سر جوڑے امریکہ وبرطانیہ و اسرائیل اور غرب وعرب وعجم کی سب شیطانی قوتیں ذلیل ورسوا ہوئیں۔ 13 سال ایڑی چوٹی کا زور لگایا ملک کی تباہی کی عوام کا بے دریغ قتل کیا تمام تر سفاکی و درندگی سے وہ شام کے صدر کو اقتدار سے نہیں ہٹا سکے۔ فتح شام کو نصیب ہوئی۔ غزہ میں حماس اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے طوفان اقصی کی کاروائی سے ان استکباری قوتوں کی ناک رگڑ دی۔ سوائے درندگی وتباہی وبربادی پھیلانے کے استکبار قوتیں آج بھی غزہ میں پوری دنیا کے سامنے ذلیل رسوا ہو رہی ہیں۔ انکے اپنے ممالک کی عوام اسرائیلی سفاکیت کے خلاف مظاہرے کر رہی ہے۔ یہاں بھی فتح غزہ کی ہے؛ اسرائیل وامریکا اور انکے اتحادیوں کے مقدر میں نہیں۔ اس عظیم قائد شہید اسماعیل ہنیہ نے اپنے بے گناہ خون اور مظلومانہ شہادت سے اسرائیل کے خاتمے اور ناجائز قبضہ کے زوال کی مہر ثبت کر دی ہے۔ اس وقت اسرائیل دن رات جاگ کر گزار رہا ہے۔ بےتاب وپریشان ہیں اور ہمارے بعض لفافہ صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کو یقین آئے یا نہ آئے دشمن کو یقین ہے کہ انتقام سخت ہو گا۔