تحریر: ح ا ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
ایک زمانہ تھا کہ برصغیر کے مسلمانوں کی آواز امت مسلمہ کے حقوق کے دفاع کے لئے ایک موثر آواز تھی۔ امت مسلمہ کا درد علامہ اقبال ؒ نے جس انداز سے اپنے منظوم کلام میں بیان کیا وہ بھی کم نظیر ہے۔ جب مغربی طاقتوں نے ملکر عالم اسلام پر ناجائز قبضہ کیا اور ان ممالک کی بندر بانٹ کر کے اپنی اپنی کالونیوں میں تبدیل کیا اور ترکی سے اسلامی سلطنت (خلافت عثمانیہ) کا خاتمہ کر کے وہاں سیکولر نظام حکومت کی بنیاد رکھی تو اس زمانے میں بھی خلافت اسلامی کے دفاع و احیاء کے لئے برصغیر کی سرزمین سے ایک مؤثر آواز اٹھی ۔ جب نجد کے وہابیوں نے حجاز مقدس پر قبضہ کیا اور آل سعود نے اقتدار سنبھالتے ہی خاندان رسالتؐ اور صحابہ کرامؓ کہ جنہوں نے توحید کا پرچم بلند کیا اسی توحید کے نام پر ان کے مقدس مزارات منہدم کئے تو اس وقت آل سعود کے اس مجرمانہ اقدام پر دنیا بھر کے زخمی دل مسلمان سراپا احتجاج ہوئے ۔اس وقت بھی ایک مؤثر احتجاج برصغیر کے مسلمانوں نے کیا۔ امت مسلمہ کے دل سرزمین مقدس فلسطین پر جب اسرائیل نامی صہیونی ریاست کے قائم کرنے کی سازش شروع ہوئی تو اسی برصغیر کی مسلم قیادت نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور اپنے فلسطینی بھائیوں کا ساتھ دیا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ و علامہ محمد اقبالؒ سمیت تمام مسلم قائدین کا کردار اس میں نمایاں ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اس خطے کے مسلمانوں کی طاقت میں اضافہ ہوا اب انکے پاس ایک آزاد وخود مختار ریاست مملکت خداداد پاکستان کی شکل میں آ چکی تھی۔ پاکستان امت مسلمہ کے اندر ایک لیڈنگ رول ادا کرنے والے ملک کے طور پر ابھرا۔اوائل میں پاکستان امت مسلمہ کے مابین باہمی تعاون اور انکے حقوق کے دفاع کے لئے ہر موقع پر میدان عمل میں نظر آیا۔ اسرائیل نے جب فلسطین کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی زمینوں پر بھی ناجائز قبضہ کر لیا تو امت مسلمہ کو متحد کرنے اور دشمن کے خلاف مشترکہ جدوجہد کرنے کے لئے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی اسی کی بنیاد رکھی گئی؛ پاکستان اس کا بانی رکن تھا۔ جمی کارٹر کے اعترافات اب تو میڈیا میں نشر ہو چکے ہیں کہ امریکہ کیسے ہمارے ملک میں جہاد افغانستان کے نام پر وارد ہوا ۔ یہ سارا جہاد امریکی جہاد تھا کہ جس کے لئے دو ارب ڈالر امریکہ اور دو ارب ڈالر سعودی عرب نے ادا کئے۔ پاکستان اس جہاد میں بری طرح استعمال ہوا۔ یوں پاکستان امریکہ کے ساتھ ساتھ سعودی عرب کی بھی غلامی میں چلا گیا۔ ڈالروں کی خاطر حکمرانوں نے پاکستان کی عزت و آبرو اور خود مختاری و آزادی سب کچھ بیچ دی۔ قوم کو جھوٹے بیانیوں اور کھوکھلے نعروں پر لگا دیا ۔ اچھا خاصا پھلتا پھولتا ملک بحرانوں کی دلدل میں پھنستا چلا گیا۔ ظالم و خودغرض اور چور و لٹیرے اقتدار پر قابض ہو کر پاکستانی عوام کی دولت لوٹتے رہے۔ معانی مفاہیم بدلے ، مخلص اور محب وطن لوگ اس ملک میں خائن وغدار اور خائن و غدار محب وطن ٹھہرے۔ پاکستان کے دوست اور دشمن بھی بدل گئے۔ پاکستان کے فیصلے اسلام آباد کی بجائے واشنگٹن و لندن اور ریاض میں ہونے لگے۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دوست ہمارے دوست اور انکے دشمن ہمارے دشمن بن گئے۔ امریکہ کے لئے اسرائیل کا وجود خود اپنے وجود سے بھی عزیز ہے جو درحقیقت مسلم ممالک پر امریکی اقتدار کی فوجی چھاونی ہے اور اسی اپنے اقتدار ونفوذ سے امریکہ مسلمانوں کی ثروت کے خزانے اور گیس و پٹرول کے ذخائر وغیرہ سب لوٹ سکتا ہے۔
امریکی وسعودی فنڈڈ جہاد نے ہمارے ملک کے ریشے ریشے میں زہریلے سانپ جنم دئیے اور پالے ہیں جو مسلسل اپنا زہر ہر ادارے اور طبقے میں پھیلاتے ہیں ۔ جھوٹ وفریب پر مبنی مفروضات اور بیانیہ کی بنا پر اس ملک کی حقیقی آزادی و خود مختاری کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ان کے جھوٹے دعوں کو اہل قلم وبیان بے نقاب کریں اور حقائق سے پاکستانی قوم کو آگاہ کریں۔ کل اسی امریکی جہاد کے پروردہ اور سعودی نمک خور صحافی سلیم صافی کا ایک زہر آلود کالم آنکھوں سے گزرا جس کا عنوان تھا کہ ” ایران سے کس طرح بات کی جائے” موصوف نے جنگ اخبار میں شائع ہونے والے اپنے اس کالم میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے بیانیے اور خطے میں جاری امریکی بلاک اور مقاومت کے بلاک کے مابین جنگوں کو امریکی بلاک کے زاویہ نگاہ سے پیش کیا اور وہی گھسے پٹے تکررای الزامات ایران پر لگائے۔ جن کا دفاع کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں کیونکہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اس تیز رفتار دور میں حقائق ساری دنیا کے سامنے آشکار ہو چکے ہیں۔ انکے بے بنیاد الزامات کی حقیقت خطے کے آزادی خواہ اور حریت پسند نوجوان نسل پر عیاں ہو چکی ہے ۔ نام نہاد مردِ مومن مردِ حق کے جہاد کی حقیقت سے لیکر وہابیت و تکفیریت کی ترویج کے اہداف و مقاصد اور امریکی وصہیونی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے پرورش پانے والے مسلح گروہ اور دہشت گرد سب بے نقاب ہو چکے ہیں۔ حتی کہ سابق امریکی مجرم صدر ٹرامپ نے تو ابھی کل ہی بیان دیا ہے کہ نائن الیون بالکل ایک جھوٹا امریکی ڈراما تھا جس کا مقصد ہمارے خطے پر جنگیں مسلط کرنا تھا۔دنیا جانتی ہے کہ لبنان و فلسطین اور عراق و یمن کے حریت پسند اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد سے اس دور کی صلیبی و وہابی و صہیونی حملہ آوروں کے خلاف اپنی آزادی و خود مختاری اور عزت و وقار کی جنگ بہادری سے لڑ رہے ہیں۔ دنیا پر مسلط استکباری قوتوں کے ظالمانہ نظام کے خاتمے کے دور کا آغاز ہو چکا ہے۔
تاریخِ پاکستان کا ہر طالب علم جانتا ہے کہ ایران پاکستان کا حقیقی برادر ملک ہے کہ جس نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا۔ انڈیا کے خلاف جنگوں میں مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ تعاون کیا۔ اور ہمیشہ پاکستان و ایران دو برادر مسلم و ہمسایہ ملک فلسطین و کشمیر سمیت متعدد ایشوز پر ایک پیج پر رہے ہیں۔ ایران سے پاکستان داخل ہونے والے ایک کلبوشن کا بار بار تذکرہ کیا جاتا ہےکیا کبھی کسی نے بتایا کہ پاکستان کی سرحد سے ہزاروں کلبوشن ایران داخل ہوئے اور انھوں نے ایران کا امن کا تباہ کیا اور سینکڑوں ایرانی سیکورٹی فورسز کے جوانوں کو شہید کیا ہے۔ امریکی بلاک کے پروردہ دہشت گردوں نے پاکستان کے ہر بڑے شہر میں ایرانی ڈپلومیٹ، تاجر ، اسٹوڈنٹس اور کیڈٹ شہید کئے۔ایرانیوں نے کبھی راولپنڈی سے جنازے وصول کیے تو کبھی لاہور سے؛ کبھی کراچی سے اور کبھی ملتان سے۔ کیا ایران بھی اسی طرح پاکستانی ڈپلومیٹس ، تاجر ، اسٹوڈنٹس اور کیڈٹس کے جنازے پاکستان بھیجتا ہے؟۔ کیا کراس بارڈر دہشت گردی کے باعث شہید ہونے والے پاکستانی سکیورٹی فورسز کے شہداء کی تعداد ایرانی سیکورٹی فورسز کی تعداد سے زیادہ ہے؟۔ اگر ہماری سرزمین امریکی اور سعودی نمک خواروں کے لئے مباح نہ ہوتی تو یہ جنگ ہمارے گلی کوچوں اور شہروں تک نہ پہنچتی اور ہمارے حکومتی دفاتر و اسکولز و بیسسز و ائرپورٹ و مساجد و عبادتگاہیں اور بازار 80 ہزار سے زیادہ بے گناہ شہریوں کے خون سے رنگین نہ ہوتے۔ ہمارے فوجی جوانوں کے سروں سے کوئی فٹبال نہ کھیلتا اور ٹارگٹ کلنگ اور دھماکوں سے ہمارے وطن کی بہنوں اور بیٹیوں کے سہاگ نہ اجڑتے اور بے بس ماوں اور یتیم بچوں کی آہ پکار اور نالے بلند نہ ہوتے۔ مقتدرہ کےان اثاثوں سے ہمارے دوست اور ہمسایہ ممالک بھی غیر محفوظ او ر وہ اس عنوان سے ہمیشہ ہم سے نالاں رہے ہیں۔
انڈیا ایران کی قربت دوستی کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے لیکن بھول جاتے ہیں کہ سعودیہ وامارات اور امریکہ واسرائیل کی انڈیا کے ساتھ کتنی قربت ہے۔ انڈیا امریکی بلاک میں ہے اور خطے میں امریکہ کا سب سے بڑا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔ جس اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرنے کے جرم میں پاکستان میں رجیم چینج آپریشن ہوا اسی اسرائیل کے اسلحہ کا دنیا میں پہلے نمبر کا خریدار انڈیا ہے۔ تجارتی راہداری اور سی پیک کے مد مقابل امریکی بلاک نے انڈیا سے اسرائیل تک کی تجارتی راہداری کا پلان لانچ کر دیا ہے اس منصوبے میں سب خلیجی ممالک بھی شریک ہیں۔ ایران اور انڈیا کی باہمی تجارت مشکل سے ایک ارب ڈالرز ہے جبکہ خود پاکستان اور انڈیا کے مابین باہمی تجارت تقریبا اس سے دوگنا ہے ۔ سعودی عرب اور انڈیا کے مابین باہمی تجارت 53 ارب ڈالرز سے تجاوز کر چکی ہے۔ پاکستانیوں سے دو برابر زیادہ انڈین سعودیہ اور خلیج میں کام کرتے ہیں۔ لیکن نہ تو کبھی انہیں نکالنے کی دھمکیاں ملتی ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ برا سلوک ہوتا ہے۔ پاکستان کی سعودی غلامی کی نوبت تو یہاں تک آ پہنچی ہے کہ ملک کا وزریر اعظم اپنی مرضی سے برادر مسلمان کا دورہ نہیں کر سکتا۔ کبھی سعودیہ اعتراض کرتا ہے کہ فلان کو صدر مملکت نہیں بننا چاہیے وگرنہ ہم اپنے قرضے واپس لیں گے یا آپکے شہری نکال دیں گے۔ کبھی وفاقی وزیر کو ہٹانے کا ریاض حکم صادر کرتا تو کبھی مشیرکے تعین کرنے کا فرمان جاری ہوتا ہے۔ ملک کے تمام تر امور میں مداخلت سعودی شہزادوں کا حق بن چکا ہے وہ تو عرب میڈیا میں کہتے ہیں کہ پاکستان ہمارے محلات کا پیچھے والا گرونڈ ہے ۔ پاکستان کی سزمین انکے لئے مباح ہے۔ جو برائی کرنا چاہیں یہاں دلال ہر دلالی کے لئے تیار ہیں۔ خلیجی ممالک کے ظالم و آمر بادشاہتوں کا اقتدار ہمارے جوانوں کی قربانیوں کا ثمر ہے۔ ہم پیسے لیکر انکی جنگیں لڑتے ہیں۔بظاہر ہمارے دوست خلیجی ممالک کشمیر اور فسطین کےا یشو پر ہندوستان کے بیانیہ پر متفق دکھائی دیتے ہیں۔ ان خلیجی ممالک کے تعلیمی نصابات میں مقبوضہ کشمیر کو آزاد اور آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر پڑھایا جاتا ہے؛ غزہ کے باسیوں کے خلاف جاری نسل کشی نہ رکنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ خلیجی ممالک حماس جیسی مزاحمتی تنظیم کے مکمل خاتمے تک اس جنگ کے جاری رہنے کے حق میں ہیں۔ مجال ہے کہ پاکستانی میڈیا و صحافت ان حقائق کا تذکرہ کریں اور ہندوستان کے ساتھ خلیجی ممالک کے تعلقات اور ہندوستان کے بیانیے کو لے کر چلنے والے ان ممالک کو کبھی پاکستان کے قومی مفادات کے خلا ف قرار دے کوئی اس پر آواز اٹھائے ۔ خلیجی اور عرب ممالک کی ہندوستان کے ساتھ دوستی اور قربت کا تو ذکر نہ کیا جائے اور اس پر انہیں کبھی مورد الزام نہ ٹھہرایا جائے لیکن ایران کو ہر آئے دن ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بنیاد پر رائے عامہ کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے یہ کس طرح کی صحافت ہے ؟۔ قومی وقار اور غیرت کا سوال کیوں نہیں اٹھایا جاتا ؟؛ غیر پسندیدہ تعصبات کی بنیاد پر دشمنوں میں اضافہ کرنے کی بجائے اور رائے عامہ کو دوست ممالک کے خلاف برانگیختہ کرنے کی بجائے قومی وقار کا سوال اٹھائیں کہ گزشتہ ستر سالہ تاریخ میں ہم سے وہ کیا غلطیاں ہوئیں کہ ہم اپنا مقام کھو بیٹھے اور عرب و مغرب کے غلام سے بڑھ کر ہماری کوئی حیثیت نہیں رہ گئی؟۔ کرپٹ اور غلام ذہنیت کے مالک حکمرانوں نے ہماری قومی عزت و وقار کو بیچ دیا ہے ؛ اس پر سوال اٹھائیں۔ ملک کی تعمیر وترقی کی بجائے ملک کا سب کچھ بیچ کر یا گروی رکھ کر قرضوں اور عطیات وخیرات پر چلنے والا ملک بنا دیا ہے؛ اس پر سوال اٹھائیں۔
اس وقت پاکستان کے اندر بیداری کی ایک لہر ہے۔ پاکستانی خواتین و مرد بالخصوص نوجوان اس غلامی سے نجات کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ عمران خان نے نوجوان نسل کو حقیقی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لئے آمادہ کیا ہے خود وہ پابند سلاسل ہے لیکن اس نے قوم کو اس راستے پر لگا دیا ہے۔ اگر عوام اسی طرح بیدار رہی اور ووٹ کے ذریعے اپنی منشا کا حقیقی اظہار کرنے میں کامیاب ہوئے اور اپنے ووٹ کی حفاظت کر سکے تو امید ہے کہ پاکستان میں روشنیوں کا سورج طلوع ہو گا۔ ظلمتوں کا خاتمہ نزدیک ہے۔ ان شاءاللہ